تحریر: ثمینہ ریاض احمد
یہ جملہ اور اس سے جڑی بے شمار یادیں ہیں، جو اس جملے کو سنتے ہی دل و دماغ اور آنکھوں پر دستک دینے لگی ہیں،،،،
آنکھیں کھولو، دل کھولو، دماغ کھولو۔۔۔۔۔۔۔ دیکھو عید آئی ہے۔۔۔۔۔
بچپن کی عیدین کی اولین یادوں میں یہ جملہ کچھ ایسے شامل تھا جیسے شیر خورمے میں پستے بادام کی ہوایاں، جیسے دادی کے ہاتھ کے سلے عید کے گوٹا لگے سرخ و سبز جوڑے کے ساتھ سرخ و سبز چوڑیوں کی کھنک، جیسے عید کے دن چمکیلے جوتے کی ہیل کی ٹک ٹک کو سن کے لطف سے آنکھیں میچنا اور مذید ٹک ٹک کرنا ، جیسے دادا ابو کے ہاتھ سے ملی عیدی کے کورے نوٹوں کی خوشبو، جیسے چاچو کے دوست کی کار میں دس بارہ لڑکوں لڑکیوں کا مشترکہ عید کے دن کا "جوٹا” جیسے عید کے دن بھائیوں کی غلیل ادھار مانگ کر درخت پر بیٹھے کوووں کا نشانہ باندھنا، جیسے عید کی ڈھلتی دوپہر میں پینگ پر ہواوں کے ساتھ اڑان بھرنا۔۔۔۔۔۔۔
عید سے ایک دو دن قبل ہی بڑا سا ٹوکرا اٹھائے "ونگالن” بڑے ٹھسے سے گھر میں گھستی اور اور بڑے ٹہکے سے کسی بڑی کو آواز دے کر ٹوکرا اتروانے کو کہتی اور گھر کے ہر کمرے سے لڑکیاں بھاگ بھاگ کر انجانی سی خوشی سے کلکاریاں سی مارتی صحن میں جمع ہوتیں، اور تو اور ہمسائیوں کو بھی یاد آ جاتا کہ دادی امی محلے کی سب سے بڑی بزرگ ہیں، اور اپنی اپنی بچیوں کو لئے دادی امی سے زبردستی چوڑیاں چڑھانے کا کہتیں اور دادی ہنسی خوشی ونگالن کو کہتیں۔۔۔۔ ہاں ہاں سب کو دو دو درجن چڑھا دو آخر عید آ گئی ہے۔۔۔۔۔
چاند رات کو روزہ کھلتے چھت کی طرف دوڑیں لگتیں، اور ہر بچے کی نس نس میں شرارے سے بھر جاتے صرف اس بات کے جوش میں کہ کون سب سے پہلے چاند دیکھے گا، اور چاند کی طرف پہلی نظر پڑتی تو ایسا محسوس ہوتا جیسے آسمان کی لوح پر چاندنی کے قلم سے خدا نے ایک خوبصورت ترین پیغام سا لکھ دیا ہو کہ دیکھو مسلمانو! عید آ گئی ہے۔۔۔۔۔۔
چاچووں کا لڑکوں کو کھینچ کھانچ کر حجام کے پاس لیکر جانا ہوتا یا پھپھو کا مہندی گھول کر تنکے سے کبھی تین اور کبھی پانچ پتی چھوٹے چھوٹے پھول بنانا اور کبھی چاند تارا بنانا اور کبھی کبھی سوتے میں محسوس ہوتا امی ہاتھ پر کچھ لگا کر ہاتھ پر شاپر باندھ رہی ہیں، صبح ہونے پر جب پھپھو نے نلکے پر ہاتھ دھلوانے تو سرخ سرخ ہتھیلیاں اور انگلیاں دیکھ کر حیران رہ جانا اور مہندی کی خوشبو سونگھتے ہوئے پھپھو سے پوچھنا یہ کیوں لگائی؟ تو انہوں نے جواب دینا عید آ گئی ہے نا۔۔۔۔۔۔
دادی امی پھپھو کو کہتیں نلکا چلا کر تازہ پانی نکالو اور نہلاو ان کو، اور پھپھو صبح صبح نلکے کے تازے پانی کی موٹی دھار کے نیچے ہم بہنوں کو زبردستی بٹھا کر نہلاتیں تو تازہ پانی بھی جسم میں برف سی پھریری دوڑا دیتا، آنکھ اور ناک میں رکسونا، لکس یا لائف بوائے کی جھاگ جاتے ہی زبان پر صابن کا تلخ ذائقہ بھی آ جاتا اور جیسے ہی رونا شروع کرنا باہر سے چاچو کی ہنستے ہوئے آواز آتی۔۔۔۔۔۔ ارے آج رونا مت، دیکھو عید آ گئی ہے۔۔۔۔۔
امی دیسی گھی میں سوجی بھونتیں اور پھپھو چائے رکھتیں، دل چاہتا کبھی بھنی سوجی کی مہک اندر اتاروں اور کبھی چائے کے ابال سے اٹھتا اروما بے حال کرتا، دادا ابو سفید براق تہبند، آف وائٹ کرتا اور کلف لگی اونچے شملے والی چاندنی سے بھی سفید پگ باندھے بیٹھک سے صحن میں آتے اور کھنکار کر اپنے آنے کی اطلاع دیتے تو امی، پھپھو، سب چچیاں اور دادی پہلے سے سر پر موجود دوپٹے کو مذید صحیح کرتے ہوئے ان کی طرف متوجہ ہوتیں اور دادا ابو کو نماز سے پہلے پہلے رات کی بنی کھیر مٹی کی سلگھوٹی میں ٹھنڈی ہوئی، کھانے کے لیے دیتیں، اور میں حیران اور شاکڈ ہو کر پوچھتی۔۔۔۔۔۔”دادا ابو آج آپ کا روزہ نہیں؟ اور دادا ابو ہنس کر کہتے۔۔۔۔۔ ارے عید آ گئی ہے نا۔۔۔۔۔
ہمیشہ سفید کپڑوں میں گھر کے سب مرد عید کی نماز پڑھ کر آتے، اور سب خواتین اور بچیوں کو عید ملتے ہوئے، دادا ابو کا سر پر ہاتھ پھیرنا، ابو کا ماتھے پر بوسہ دینا، چاچووں کا گلے لگاتے ہوئے ہوا میں اچھال دینا اور بھائیوں اور کزنز کا بڑوں کا دھیان بٹتے ہی بال کھینچ دینا، چٹکی کاٹنا یا سرخ سبزکپڑوں کے ساتھ سرخ و سبز ہی میک اپ کا مذاق اڑاتے ہوئے چاچووں کو قہقہوں میں شامل کرنا، اور افشاں لگی آنکھوں میں بھل بھل آنسو آنے پر کسی چاچو کا پکڑ کر منہ دھلا دینا کہ میری بیٹی تو ایسے ہی پیاری ہے، یہ سنتے ہی محسوس ہوتا کہ ہاں۔۔۔۔۔ عید آ گئی ہے
مجھے یاد ہے ایک بار میں "عید آ گئی ہے،عید آ گئی ہے” کی تکرار سن کر گھروں سے تھوڑا ہٹ کے کھیتوں کی طرف نکل گئی تھی کہ دیکھوں عید کہاں سے آ رہی یے ❤ اور آج پھر کئی سالوں بعد میں سوچ رہی ہوں کہ ایک بار پھر کھیتوں میں نکل جاوں اور دیکھوں کہ عید آ رہی ہے یا نہیں۔۔۔۔
لیکن۔۔۔۔۔
میں جانتی ہوں اب ویسی عیدیں نہیں آتیں، اب عیدوں پر بھی کچھ سانحوں کی بس خبریں آتی ہیں۔۔۔۔۔
دکھ کے ان لمحات میں بچپن کی چند خوبصورت یادیں مبارک، سب کو عید مبارک