تحریر: توقیر مصطفی بدر
مفکر، شاعر،ڈاکٹر،سر علامہ محمد اقبال کے 78 ویں یوم ولادت پر عشق پاکستان میں ڈوبی ایک تحریر۔۔۔
قیام پاکستان کے بعد آج ہم کہیں گے کہ علامہ اقبال کا آدھا خواب پورا ہو چکا ہے ۔قیام پاکستان کی صورت میں۔ اقبال نے ایک الگ وطن کا خواب دیکھا ،اس کو پورا کرنے کے لیے اﷲ نے قائد اعظم جیسا لیڈر دیا ۔ جس کی انتھک محنت سے وطن عزیز قائم ہو گیا ۔
کیا اقبال نے صرف ایک الگ وطن کا ہی خواب دیکھاتھا ۔نہیں ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے خواب یہ دیکھا تھا کہ ایک ایسا ملک جس میں اسلامی نظام حکمرانی کا نفاذ ہو ۔اقبال نے جب ایک علیحدہ ریاست کا تصور دیا تھا تو انہوں نے اس ریاست کے لئے نظام کے خدو خال کو بھی واضح کیا تھا ۔ وہ مغربی جمہوریت کے زبردست مخالف تھے ۔ایسی جمہوریت جس میں صرف سرمایہ دار ہی حکومت میں حصہ لے سکتا ہے ۔جہاں غریب روز بروز غریب ہوتے جا رہے ہیں ۔ایسی جمہوریت کا خواب علامہ اقبال نے اپنے ملک پاکستان کے لیے نہیں دیکھا تھا، جس میں کرپشن ،نا انصافی،بے ایمانی کا راج ہو ۔
پاکستان میں رائج جمہوریت سے ہم واقف ہیں۔ اسے 68 سال سے زائد ہوابھگت رہے ہیں۔جو فقط اور فقط سرمایا داروں ، جاگیرداروں ، سر داروں کے گھر کی لونڈی ہے ۔علامہ اقبال مغرب کے اس جمہوری نظام کو چنگیزیت سے ہی تعبیر کرتے ہیں ،کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ علامہ اقبال ایسی جمہوریت جیسی اس وقت ہے یا جیسی جمہوریت کی ہم مثالیں دیتے ہیں ،یعنی جو مغرب میں قائم ہے ۔اس کے مخالف تھے فرماتے ہیں ۔
تو نے دیکھا نہیں کیا مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
پاکستان میں جو موجودہ جمہوریت ہے۔ اسے ہم کسی بھی طرح جمہوریت نہیں کہ سکتے ،جمہوریت بھی گدی نشینی کی طرح نسل در نسل ہے ۔
چند سرمایہ دار خاندان مسلط ہیں۔ بیٹا ایک پارٹی میں باپ دوسری میں چچا تیسری میں بھتیجا چوتھی میں ،مطلب سیٹ اس ہی خاندان میں رہتی ہے ۔اس جمہوریت میں جمہور کی شرکت ممکن نہیں ۔ان کا کام ووٹ ڈالنے تک محدود ۔علامہ اقبال کیسی ریاست چاہتے تھے۔ اس کا ایک منظر ہم کو جاوید نامہ میں ملتا ہے ۔مولانا روم کی قیادت میں علامہ اقبال دنیا کی سیر کو نکلتے ہیں ۔وہ ایک ایسی ریاست میں جاتے ہیں۔ جہاں ظلم، غربت، پولیس، جاگیرداری، سرمایہ داری ،جرائم وغیرہ ناپید ہوتے ہیں ۔مذہب ،سائنس و ٹیکنالوجی ،علم و ادب ،تعلیم و تربیت اس ریاست کی بنیاد ہوتی ہے ۔جاویدنامہ میں اس شہر ریاست کا نام مرغدین بتایا گیا ہے ۔
قیام پاکستان کے بعد اب دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ علامہ اقبال نے جیسے ملک کا خواب دیکھا اس کو پورا کیا جائے۔ اس کے لیے ایک قائد اعظم ثانی کی ضرورت ہے، یوں تو ہمارے ملک میں سب ہی قائد اعظم ثانی کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ،محترم نواز شریف ہوں ،جناب عمران خان ہوں ،مولانا سراج الحق،ڈاکٹر طاہر القادری صاحب یوں یا دیگر سیاست دان سب نے ایک اشتہار بنایا ہوا ہے ،جس میں پہلے علامہ اقبال کی پکچر لگائی جاتی ہے اور لکھا ہوتا ہے خواب ،پھر قائدا عظم کی تصویر کے ساتھ درج ہوتا ہے، تعمیر اس کے بعد ہر جماعت اپنے لیڈر کا فوٹو لگا کر تکمیل لکھ دیتے ہیں ۔جی بالکل ابھی علامہ اقبال کے خواب کی آدھی تکمیل باقی ہے ،آدھا خواب باقی ہے ۔اس کے لیے ایک اور قائد اعظم کی ضرورت ہے ۔
ہمارے موجودہ قائداعظم ثانی جتنے بھی ہیں، کاش وہ اس بات کو سمجھ سکیں کہ کہنے کی وفا اور ہے کرنے کی وفا اور ہے ۔ زیادہ کیا کہنا بس اتنا کافی ہے، ان سب کے ہاتھ میں جھرلو ہے ۔اگر یہ مخلص ہوں تو اتحاد کریں اور وطن کے لیے کام کریں ۔ان میں سے بہت سے تو ایسے ہیں، جن پر کرپشن کے مقدمات ہیں ،جو کسی مخصوص فرقے سے تعلق رکھتے ہیں ،جو کہتے کچھ اور ہیں کرتے کچھ اور ہیں ۔بھلا یہ علامہ اقبال کے خواب کو تکمیل کیسے دے سکتے ہیں ۔بدقسمتی سے موجودہ سیاسی اور علمی رہنماوئں میں وہ صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ اسلام و پاکستان کے لیے اپنا ذاتی مفاد ترک کر دیں ۔قائد اعظم اور علامہ اقبال کی تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ ایک ایسا ملک جس میں اسلام کی ابدی تعلیمات سے رہنمائی لی جائے ۔
اسلام کے قانون تو بنے بنائے ہیں، ان کے صرف نفاذ کا مسئلہ ہے اور اس سے پہلے مختلف مکاتب فکر کا اتفاق ضروری ہے ۔’’مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو آخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا پڑے گی ‘‘اور علامہ اقبال نے ہی فرمایا ہے کہ جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی اس کا مطلب ہے سیکولرازم اور نظریہ پاکستان کی جداگانہ حقیقت۔قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ اسلام محض رسوم، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ نہیں ہے ۔ اسلام ہر مسلمان کے لیے ضابطہ حیات بھی ہے ،جس کے مطابق وہ اپنی روزمرہ زندگی، اپنے افعال و اعمال، حتیٰ کہ سیاست اور معاشیات اور دوسرے شعبوں میں بھی عمل پیرا ہوتا ہے ۔(کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب، 25 جنوری 1948ء)بات علامہ اقبال ان کا تصور پاکستان اور موجودہ پاکستان کے بارے میں ہو رہی ہے، علامہ اقبالؒ کی شاعری کے سب سے اہم مقاصد مسلماناں برصغیر کو خواب غفلت سے جگا کر مذہبی اور سیاسی شعور بیداری اور ان میں جذبہ اخوت محبت ویگانگت پیدا کرنا تھا، جس کے متعلق خود علامہ اقبال نے فرمایا!
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں
اقبالؒ نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو راہ عمل دکھائی اور انہیں یہ بات باور کرائی کہ صرف خواب دیکھنے اور زور دار تقریریں کرنے سے قوموں کا مقدر نہیں بدلتا بلکہ صرف عمل کی قوت سے کوئی بھی قوم اپنی تقدیر خود بدل سکتی ہے ۔علامہ اقبالؒ کی شاعری نے مسلمانوں میں نئی روح پھونک دی ،آپ نے مسلمانوں میں یہ شعور بیدار کیا کہ وہ ایک الگ قوم ہیں اور الگ وطن ہی ان کے مسائل کا حل ہے،
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو مفت
ہے ایسی تجارت میں مسلمانوں کا خسارہ
کاش اس دھرتی پہ اک اور اقبال آئے کاش اس دھرتی پر ایک اور قائد آئے جسے قائد اعظم کہا جا سکے ۔جسے علامہ اقبال کہاجاسکے-
عوام وحکمرانوں سے گذارش ہے کہ اقبال کے پیغام کو سمجھیں اور علامہ اقبال وقائد اعظم محمد علی جناح کے پاکستان کی تکمیل کے اٹھ کھڑے ہوں۔ایک ہوجائیں،متحد ہوجائیں ۔