حامد تیز تیز قدموں سے اپنے سرکاری کوارٹر کی طرف رواں دواں تھا کے اچانک زور سے بادل گرجنے شروع ہوۓ اور حامد جو آسمان پر کالی گھٹائیں دیکھتے ہوۓ اسی خطرے کے پیش نظر تیزتیز چل رہا تھا اور تیز چلنا شروع ہو گیا اسکا سرکاری کوارٹرااسکے دفتر سے کچھ ہی فاصلے پر تھا جسکی وجہ سے اسے کبھی سواری کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی اور وہ آسانی سے چلتے چلتے چند منٹوں میں ہی گھر پہنچ جاتا چلتے ہوۓ جیسے ہی وہ اپنی گلی میں داخل ہوا حسب توقع وہ پاگل اسی جگہ بیٹھا نظر آیا جہاں حامد نے اسے پہلی بار آج سے تقریبآ 6 سال پہلے دیکھا تھا وہ آج بھی اسی جگہ بارش اور کیچڑ سے بےنیاز کچرے کے ڈبے کے پاس چند کتوں کے ساتھ تشریف فرما تھا حامد نے 6 سال کے طویل عرصے میں کبھی اسے وہاں سے غائب نہیں دیکھا تھا زیادہ سےزیادہ اس کی ہجرت اس میدان تک ہوتی جہاں کچرے کا دوسرا ڈبہ بالکل حامد کے آفس کے سامنے تھا اگر وہ گلی میں نہ ہوتا تو یقینی طور پر دوسرے ڈبے کے پاس سو رہا ہوتا یا اپنے دوست کتوں کے ساتھ کچرے کے ڈبے میں کچھ کھانے کے لئے تلاش کر رہا ہوتا جسم کے نام پر چند ہڈیاں جواسکی فاقہ کشی کی ایک بولتی تصویر تھیں لباس کی صورت میں چند چیتھڑے لٹکاۓ ہوۓ میلے الجھے بال آنکھوں میں عجیب سی وحشت اور لالی لیے وہ پہلی نظر میں کسی دوسرے سیارے کی مخلوق لگتا حامد اکثر سوچتا رہتا کے سخت سردی کے موسم میں بے رحم ٹھنڈک جسم پر گرم لباس ہونے کے باوجود اسکی ہڈیوں کے گودے تک اثر کرتی تھی یہ پاگل چند چیتھڑوں میں کیسے برداشت کرتا ہو گا اور جون جولائی کی جلد کو جھلسا دینےوالی گرمی میں بھی کیسے وہ بڑے آرام سے اپنی نیند پوری کرتا نظر آتا ہے واقعی کسی نے ٹھیک کہا ہے کے جینا ہے تو پاگل بن جا نہ کھانے کی فکر نہ کپڑوں کی نہ سردی نہ گرمی بس اپنی خیالاتی دنیا میں مصروف ایک مجنوں جو اپنی لیلا کی جدائی میں حوش و حواس گنوا بیٹھا ہو حامد نے پہلے پہل تو اس سے دوری اختیار کی کہ پاگل کا کیا بھروسہ کہیں کوئی نقصان نہ پہنچا دے لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا وہ اس پاگل سے مانوس ہوتا گیا اکثر اوقات کبھی پھل فروٹ جو وہ اپنے لئے خریدتا اس میں سے کچھ اس پاگل کو بھی نواز دیتا یا پانچ دس روپے اسے تھما دیتا کےجب بھوک لگے تو پیٹ کی آگ بجھا سکے. ایک طویل عرصے سے اس کو دیکھتے دیکھتے اب حامد کو وہ اپنا دوست محسوس ہونے لگا ویسے تو حامد کی ڈیوٹی کا منصب اسے دوست بنانے کی اجازت نہیں دیتا تھا کیونکے حامد پاکستان کے انتہائی حساس ادا رے کا ملازم تھا یہ وہ ادارہ تھا جہاں پر دوست بنانا تو دور کسی اجنبی سے بات تک کرنے کی اجازت نہیں تھی لیکن ایک پاگل سے بھلا اس کو کیا خطرہ ہو سکتا تھا.
جی ہاں حامد پچھلے 5 سال سے(پاکستان اٹامک انرجی کمشن)(پی اے ای سی) کے چیئرمین کا ڈرائیورتھا اور آج تک اسکے ریکارڈ میں اسے نہایت محنتی اور وفادار گردانا جاتا تھا اور اسکی شخصیت بےداغ تھی لیکن پھر بھی وہ کسی غلطی کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا اور دوسری اور نہایت اہم بات جو صرف حامد کے سوا کسی کو نہ پتا تھی وہ یہ کے وہ پس پردہ را(انڈین انٹیلیجنس) کا ایجنٹ تھا آج سے 6 سال پہلے وہ نقلی دستاویزات کے ذریعے ایک پاکستانی کی حثیت سے پاکستان میں داخل ہوا تھا اوراس ملک کی چند ضمیر فروش کالی بھیڑوں کے مردہ ضمیر کی بھاری قیمت ادا کر کے ڈرائیور جیسی چھوٹی ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا لیکن یہ چھوٹی ملازمت اسکے بڑے مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے نہایت موزوں تھی اور وہ انتہائی کامیابی سے اب تک (انٹیلیجنس بیورو) اور( ملٹری انٹیلیجنس) جیسے اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونکتا رہا ،بارہا اسکے اپنے ادارے سے ایجنٹوں نے نامعلوم افراد بن کر لاکھوں روپوں کی آفر دے کر اسکا امتحان لیا اسے آزمایا گیا لیکن ایک ایجنٹ ہوتے ہوۓ اسے اس بات کا ادارک تھا کے یہ اس کی آزمائش ہے اور وہ آزمایش میں خود کو ملک کا وفادار شہری ثابت کرنے میں 100% کامیاب رہا اسی 100% کامیاب ریکارڈ کی وجہ سےوہ را میں بھی مسٹر 100% کے نام سے مشہور تھا اس نے کئی ملکوں میں اُن کے اداروں کے اندر رہ کر انکے انتہائی اہم راز چرائے تھے اور اسکو پکڑنا دشمن کا ایک خواب ہی رہا تھا اسی ریکارڈ کو مد نظر رکھتے ہوۓ اسے دشمن ملک کے ایٹمی ہتھیاروں کی معلومات اور انکی ایٹمی تنصیبات کا نقشہ چرانے کے لئے منتخب کیا گیا اور ہمیشہ کی طرح اس بار بھی وہ کامیابی کے بالکل نزدیک تھا کیونکے آج صبح اسے ایک دوسرے ایجنٹ کے ذریعے جو نزدیکی میڈیکل سٹور پر بطور سیلز مین کام کرتا تھا لیکن حقیقت میں را کا ایک انفارمر تھا میسج بھیجا گیا کے (آپکی مطلوبہ دوائی آ چکی ہے لے جائیں)
جسکا مطلب تھا کے مطلوبہ دستاویزات آفس میں موجود ہیں اڑا لواور حامد اسی انتظار میں تھا کے کب رات کی سیاہی پھیلے اور وہ اپنے بےداغ ریکارڈ میں ایک اور کامیابی کا اضافہ کرے ٹھیک رات کے 1 بجے جب ساری دنیا خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھی وہ اپنی پوری تیاری کے ساتھ رات کی تاریکی سے مماثلت رکھتا کالا لباس پہنے گھر سے باہر نکلا اسکے دیگر سازوسامان میں آفس اورتجوری کی ڈپلیکیٹ چابیاں اور9 ایم ایم پستول بھی شامل تھا آفس اور گھر کا درمیانی راستہ طے کرتے ہوۓ اسے محسوس ہوا طوفانی موسم تیز ہوائیں اور بارش بھی اسکی کامیابی کا سامان پیدا کر رہی ہیں ہیں جنکی وجہ سے سڑکوں پر جو اِکا دُکا گاڑی نظر آتی تھی وہ بھی آج نظر نہیں آ رہی تھیں اور کالی گھٹاؤں کی وجہ سے تاریکی میں اضافے کی وجہ سے کسی کے دیکھنے کا خدشہ بھی کم تھا انتہائی احتیاط کے ساتھ وہ آفس کے قریب کچرے کے ڈبےکے پاس پہنچا مرکزی دروازے کے پاس کرسی پر بیٹھے گارڈ کو دیکھ کر اسے بالکل حیرت نہیں ہوئی کیونکے اسی ادارے کا ملازم ہونے کے ناتے وہ گارڈ کی موجودگی سے آگاہ تھا اوراس سے نمٹنے کیلئے بیہوش کرنے والی گن (ڈوپ گن) وہ پہلے سے ساتھ لایا تھا گن نکال کر اس نے گارڈ کی گردن کو نشانے پر لیا اور پھر نہایت مہارت کے ساتھ فائر کیا گیا ڈوپ گن کا ڈارٹ سیکورٹی گارڈ کی گردن میں پیوست ہوگیا گارڈ جس تیزی سے بینچ پر ڈھیر ہوا اس سے ثابت ہوتا تھا کے یہ کوئی معمولی ڈارٹ گن نہیں تھی بلکہ پروفیشنل ایجنٹ کے استعمال کے لئے بنائی گئی اسپیشل ڈوپ گن تھی جس میں انتہائی سریع الاثر دوا استعمال کی جاتی ہے جو سیکنڈ وں میں دشمن کو دنیا و مافیہا سے بےخبر کر دیتی تھی اور انتہائی باریک سوئی ہونے کی وجہ سے ہوش میں آنے کے بعد کوئی تکلیف نہ ہونے سے متاثرہ شخص صرف یہ محسوس کرتا کہ شاید وہ گہری نیند سو گیا تھا گارڈ کو بیہوش کرنے کے بعد اس نے گارڈ کے پاس جا کر اس کی گردن سے سوئی نکالی اور گارڈ کو اس طریقے سے بٹھایا کہ دیکھنے والا سمجھے کے وہ بیٹھے بیٹھے سو گیا ہو.اب اگلا مرحلہ سیکورٹی کیمرے کی آنکھ سے بچنے کا تھا اور اسے اس بات کا ادراک تھا کہ بجلی بند ہونے کے فورا بعد جنریٹر آٹومیٹک سٹارٹ ہوتے ہیں اورکیمرے دوبارہ کام کرنا شروع کر دیتے ہیں لیکن اس دوران کیمرے ری سٹارٹ ہونے کے عمل کی وجہ سے دوبارہ ریکارڈنگ تقریباً 1 منٹ بعد سٹارٹ ہوتی ہے اور اس کے لئے صرف یہ 1منٹ کاعرصہ کافی تھا دروازہ کھول کر اندر داخل ہونے کے لئے اور بجلی بند کرنے کے لئے وہ اس بلب کی طرف بڑھا جو گارڈ کے بنچ کے اوپر لگا تھا بلب اتار کر اسکے اوپر ایک 5 روپے کا سکہ رکھنے کے بعد جب اس نے دوبارہ بلب کو ہولڈر میں رکھ کر دبایا تو ایک جھماکا ہوا جس سے فیوز اڑا اور بجلی آف ہو گئی سکہ نکال کر بلب دوبارہ ہولڈر میں لگا کر وہ پھرتی سے آفس کے دروازے کوڈپلیکیٹ چابی سے کھول کر اندر داخل ہوا اور چیئرمین آفس کی طرف بھاگنے لگا اس کے پاس صرف 30 سیکنڈ بچے تھے کیمرے سے بچنے کے لئے تقریبا 5 سیکنڈ باقی تھے کہ دروازہ کھول کر چیئرمین کے کمرے میں داخل ہونے کے بعد اس نے سکھ کا سانس لیا کیونکے یہاں وہ محفوظ تھا کمرے کے اندر کیمرے نہیں تھے یہاں وہ اطمینان سے اپنا باقی کا کام سر انجام دے سکتا تھا اب اسکی نظر تجوری پر تھی جس میں ایٹمی تنصیبات کا نقشہ تھا وہ نقشہ جو عالم اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کی بربادی کا ایسا صور تھا جسے پھونکتے ہی ان سب کے لئے ایک قیامت صغریٰ برپا ہو جاتی یہ ایٹمی ہتھیار سب سے بڑا خطرہ اسکے اپنے ملک کے لئے تھے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی وجہ سے انکی راتوں کی نیند حرام ہو چکی تھی جو ہر دم یہ بات کرتے تھے کے پاکستان کی حیثیت ہمارے ہاتھی جیسے ملک کے سامنے ایک چیونٹی سے زیادہ نہیں لیکن اب یہ چیونٹی ہاتھی کے کان میں داخل ہو چکی تھی اور عنقریب کہ ہاتھی کا دماغ کھانا شروع کرے اس کا مرنا بہت ضروری تھا اسکے مرتے ہی اسکا ملک بھی اس خطرے سے آزاد ہو جاتا جو عالم کفار کی جان پر بنا ہوا تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان پہلی اسلامی ایٹمی ریاست بن گیا ہے جس کو امت مسلمہ اسلام کا قلعہ کہتی ہے یہ قلعہ دشمنان اسلام کی آنکھوں میں کھٹک رہا تھا اور آج وہ قلعے کی مظبوط فصیلوں کو توڑنے آیا تھا وہ سوچ رہا تھا کہ اس کارنامے کے بعد اسکا نام ہندوستان کی تاریخ میں ہمیشہ سنہری الفاظ میں لکھا جائے گا جب جب دشمن کو زک پہنچانے کی بات ہو گی اسکا نام سرفہرست ہو گا یہ سوچتے سوچتے اس نے تجوری کی ڈپلیکیٹ چابی سے تجوری کو کھولا اور ایٹمی تنصیبات والی فائل جس پر ٹاپ سیکرٹ لکھا ہوا تھا اسکی اندر موجود نقشے اور دفاعی معلومات کو تصویروں کی شکل میں اپنے ڈیجیٹل کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے لگا ایک پیشہ ور مصور کی طرح ہر زاویے سے تصویریں اتارنے کے بعد اس نے فائل واپس رکھی اور تجوری کو دوبارہ بند کیا اور باہر نکلنے کی تیاری کرنے لگا دوبارہ بجلی بند کرنے کے لئے اس نے چئیرمین کے روم سے اٹیچ باتھ روم کا بلب سکے کے ساتھ فیوز اڑانے کیلئے استعمال کیا اور پہلےکی طرح اس بار بھی شارٹ سرکٹ بریکر کی وجہ سے جنریٹر بند ہو گیا اب جنریٹر دوبارہ آٹومیٹک سٹارٹ ہونے میں 2 منٹ کا ٹائم تھا اور ان 2 منٹ میں وہ اس عمارت سے با آسانی باہر نکل سکتا تھا کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی کہ کوئی اس ملک کی تباہی کا سامان اپنے ساتھ لے کر نکلنے میں کامیاب ہو چکا ہے بھاگتے ہوۓ اس نے چیر مین آفس اور مرکزی دروازے کا راستہ طے کیا باہر نکل کر آفس کے دروازے کو تالا لگاتے ہوۓ دل ہی دل میں ہنسنے لگا کہ کتنی آسانی سے وہ کامیاب ہوا تھا اتنی اہم دستاویزات چرانے میں جس کو چرانےکے لئےاسے یعنی مسٹر100% جیسے تجربہ کار اور زیرک ایجنٹ کو منتخب کیا گیا تھا یہ کام تو کوئی بھی معمولی ایجنٹ آسانی سے کر لیتا تالا لگانے کے بعد وہ جیسے ہی پلٹا اس پاگل کو اپنے عین پیچھے کھڑا دیکھ کر گھبرا گیا اسکے پیروں تلے زمین نکل گئی اسے اچھی طرح یاد تھا کہ باہر نکلتے ہوۓ اسنے بڑی احتیاط سے چاروں طرف نظر دوڑائی تھی اسے کوئی آدم زاد تو کیا کوئی جانور تک دکھائی نہیں دیا ایسے میں یہ پاگل ایک بھوت کی ماند اسے عین پیچھے نمودار ہوا تھا اسکا حیران ہونا فطری تھا
پھر اچانک اسے خیال آیا شاید یہ پاگل اسے دیکھ کر پیٹ کے ہاتھوں مجبور ہو کر اسکے پیچھے آیا کچھ پیسے ملنے کی آس میں جن سے وہ پیٹ کی آگ بجھا سکے ہاں یہ تو پاگل ہے جس کو وہ پچھلے 6 سالوں سے وہاں دیکھ رہا تھا بھلا میں اسکو دیکھ کر کیوں پریشان ہو گیا اسے بھلا کیا خطرہ ہوسکتا تھا یہ سوچ کر اس نے اپنی جیب سے چند روپے نکال کر پاگل کی طرف بڑھائے لیکن پاگل کا رد عمل سمجھا رہا تھا کہ دال میں کچھ کالا ہے کیونکے اس پاگل کی پوری توجہ اس کیمرے کی طرف مرکوز تھی جس میں ایٹمی تنصیبات کی تصویریں تھی وہ کیمرے کو پتھرائی نظروں سے دیکھے جا رہا تھا اچانک اس کے دماغ میں خطرے کا الارم بجنا شروع ہو گیا نہیں یہ پاگل نہیں ہے اسکا کیمرے کو دیکھنے کا انداز بتا رہا ہے کہ اسے کیمرے کے اندر چھپے راز کا علم ہے لیکن حامد نے اپنے دماغ کے الارم کو نظر انداز کرتے ہوۓ پیسوں میں چند نوٹوں کا اضافہ کر کے دوبارہ اس کی طرف بڑھائے لیکن اب کی بار پاگل نے نوٹوں کو نظر انداز کرنے کے بجاے انھیں پکڑ کر پھینک دیا اورہاتھ سے کیمرے کی طرف اشارہ کیا جیسے کہہ رہا ہو کے اسے نوٹوں کی نہیں اس کیمرے کی ضرورت ہے حامد کے اندر کا سیکرٹ ایجنٹ ایک دم بیدار ہوا اور اسنے اپنی کمر کےساتھ بندھے ہولسٹر کی طرف ہاتھ بڑھایا جس میں اسکا پستول تھا لیکن اس کی پستول نکالنے کی حسرت حسرت ہی رہ گئی کیونکے وہ پاگل جیسے پہلے ہی اس کے ارادےسے واقف تھا اس نے بجلی سی تیزی سے اسکے بڑھتے ہاتھ کو اپنے ہاتھ کی گرفت میں جکڑ لیا اچانک حامد درد سے دہرا ہو گیا اسے لگا کہ اسکا ہاتھ کسی آہنی شکنجے نے جکڑ لیا ہو اسکی آہنی گرفت سے حامد کو لگا کہ اگر وہ تھوڑی سی طاقت اور استعمال کرے تو وہ اسکی کلائی توڑ ڈالے گا حامد نے اپنی پوری طاقت مجتمع کر کے کیمرا اس پاگل کے منہ پر دے مارا لیکن اسکی حیرت کی انتہا نہ رہی کیونکے پاگل ویسے کا ویسا اسکے سامنے کھڑا تھا ایسا لگتا تھا جیسے کیمرا کسی دیوار پر لگا ہوں پاگل کی گرفت یا اسکے چہرے کے تاثرات پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا اور پاگل کی نظریں گویا یہ کہہ کر چڑا رہی ہوں ایک بار پھر کوشش کر کے دیکھو اچانک حامد نے محسوس کیاکہ کسی نے اس کے سر پر ہتھوڑا دے مارا ہو مگر وہ ہتھوڑا نہیں تھا اس پاگل کا گھونسا تھا اسکے بعد حامد کے چراغوں میں روشنی نہ رہی جب حامد کو ہوش آیا تواسنے اپنے آپ کو بندھا ہوا پایا اپنے ہی کمرے میں جو اسکا سرکاری کوارٹر تھا اوروہ پاگل اسکے سامنے کھڑا کیمرے سے تصویریں مٹانے میں مصروف تھا حامد اس سے مخاطب ہوا مسٹر پاگل یہ تو مجھے پتا چل گیا ہے کہ تم پاگل نہیں لیکن یہ نہیں پتا کہ تم کس ادارے سے تعلق رکھتے ہو کون ہو تم صرف اتنا بتا دو کے مسٹر 100% کو مات دینے والا کون تھا میں صرف اتنا جاننا چاہتا ہوں کہ یہ کونسی طاقت ہے جس نے میرے جیسے انتہائی تجربہ کار ایجنٹ کے بےداغ ریکارڈ کو داغدار کیا مجھے اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ تم مجھے زندہ رکھتے ہو یا مار ڈالتے ہو صرف اتنا بتاؤ کہ مسٹر100% نے جس ہستی سے شکست کھائی وہ کون تھا مجھے میرے جاننے والے دوست مسٹر100% کہہ کر پکارتے ہیں تمہاری پہچان کیا ہے میں را کا سب سے ہونہار ایجنٹ ہوں مجھے ہرانا کسی معمولی آدمی کے بس کی بات نہیں کون ہو تم؟ (انٹیلیجنس بیورو؟ملٹری انٹیلیجنس؟ پولیس ؟ رینجرز؟ یا کوئی عام آدمی؟)
غیر متوقع طور پر حامد کو اس پاگل کی آواز سنائی دی تم کیوں پوچھ رہے ہو ؟ تم تو مجھے اچھی طرح جانتے ہو میں ایک پاگل ہی ہوں میں وہ پاگل ہوں جو اپنے وطن کی محبت میں پاگل ہوا ہے جسے صرف اور صرف اپنے وطن سے دیوانگی کی حد تک محبت ہے میں وہ پاگل ہوں جو اپنی محبوبہ کی طرف آنکھ اٹھانے والوں کو اپنی دیوانگی کے سمندر میں بہا کے غرق کر دوں میں وہ پاگل ہوں جو اپنے محبوب وطن کی طرف دیکھنے والوں کو اپنے پاگل عشق کی آگ میں جلا کر راکھ کر دوں میں وہ پاگل ہوں جسے وطن کی محبت میں نہ سردی محسوس ہوتی ہے نہ گرمی نہ لذیذ کھانے کی طلب نہ اچھے کپڑوں کی نہ بہادری کے میڈل نہ کوئی سرکاری مراعات نہ بیوی بچوں کا پیار نہ ماں باپ کی شفقت نہ دوستوں کی محفل نہ پیسے کی طلب مجھے ان سب سے کوئی سروکار نہیں میری صرف اتنی خواہش ہے کے جب میں وطن کی حفاظت کرتے شہید ہوں تو میرا ضمیر مجھے شاباشی دے اور میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہو اور میرا نام ان پاگلوں کی فہرست میں لکھا جاۓ جنہوں نے اپنے وطن کے لئے اپنی جان قربان کی میں وہ مجنوں ہوں جسکی لیلا اسکا وطن پاکستان ہے میں ایک پاگل ہوں ایک پاگل ہی اس وطن کی حفاظت کر سکتا ہے جسکی سالمیت دشمنان اسلام کی تباہی ہے جس کی وجہ سے کفّار اور دجالی طاقتیں متحد ہو کر اسے صفحہء ہستی سے مٹانے کی ناکام کوششیں کر رہی ہیں لیکن حفاظت صرف ہتھیاروں سے نہیں ہوتی اسکے لئے سب سے ضروری ہوتی ہے وطن کی محبت اور مر مٹنے کا پاگل پن ہاں میں پاکستان کے ان بیشمار گمنام پاگل سپاہیوں میں سے ہوں جنہوں نے صرف اور صرف ایک ہی بیڑا اٹھایا ہوا ہے
پاکستان کا مطلب کیا
لا الہ الا اللہ
کون ہمارا رہنما
محمد الرسول اللہ
اور دشمن کیسے مٹا سکتے ہیں اس لا الہ الا اللہ کو جب ہم لا الہ الا اللہ کہہ کر دشمن پر وار کرتے ہیں تو وہ طاقتیں ہماری مدد کرتی ہیں جس کے سامنے سب طاقتیں ہیچ ہیں اور جب ہم محمد الرسول اللہ کی رہنمائی پر چلتے ہیں ہیں تو سب راہیں سیدھی ہو جاتی ہیں کیونکے ان سے بڑا کوئی رہنما نہیں
تم مجھے پاگل کہہ کر بلاؤ محھے فخر ہو گا کہ میں
لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ
کے عشق میں پاگل ہوں قسم اس رب العالمین کی اگرخدا مجھے ہزار زندگیاں عطا کرے توبھی میں ہر زندگی میں ایساہی پاگل کہلانا چاہوں گا کیوں کہ اس سے بڑھ کر کوئی عزت نہیں جو عزت رب العزت اور رسول کے حضور اسکے ان بندوں کی ہے جو انکے نام اور دین کی حفاظت کرتے ہوۓ جام شہادت نوش کرتے ہیں
پاگل پستول پر سایلینسر لگاتے ہوۓ بولا کہ میری طاقت اور عزم کے سامنےکفار کی تمام دنیاوی طاقتیں ہیچ ہیں کیونکے میری زندگی لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ سے شروع اور لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ پر ختم ہوتی ہے ہاں کیونکے تمہاری موت میں صرف چند لمحے ہی باقی ہیں تو میں تمہاری آخری خواہش ضرور پوری کروں گا تو سنو
میں آئی ایس آئی ہوں
میں پاکستان کے ناقابل تسخیر دفاع کی آخری لکیر ہوں
اسکے ساتھ ہی سایلینسر لگے پستول سے ایک ہلکی سی آواز برآمد ہوئی اور پگھلا ہوا سیسہ حامد کے ماتھے میں پیوست ہوا حامد حیرت بھری آنکھوں سے دل ہی دل میں اسکے پاگل پن کی داد دیتے ہوۓ ہمیشہ کے لئے ابدی نیند سو گیا.
یہی آئی ایس آئی کا اصول ہے پاکستان کی طرف بری نظر سے دیکھنے والوں کی صرف ایک سزا
موت(آئی ایس آئی)
پاگل نے بڑے آرام سے حامد کی جیب پر ہاتھ صاف کیا اور کمرے سے چند بیش قیمت چیزیں اپنے قبضے میں کیں اور باہر جا کر گٹر میں ڈال دیں اسکے بعد اپنے کچرے کے ڈبے کے پاس آرام سے سو گیا
صبح اخبار میں ایک خبرتھی
نامعلوم ڈکیتوں نے پاکستان کے سرکاری ادارے کے ملازم کے گھرڈاکہ ڈالا اور مزاحمت کے دوران ملازم جس کا نام حامد بتایا جاتا ہے ڈکیتوں کی گولی سے جاں بحق ہو گیا اور ڈکیت گھر سے قیمتی زیورات اور نقدی لے کر فرار پولیس نے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے
پاکستان کے تمام گمنام محافظوں اور سپاہیوں کو پاکستانی عوام کا سلام