یہاں مجھے تین چیزوں میں سب سے زیادہ کشش محسوس ہوتی ہے، کھجور،سمندر اور سٹی.
سڑکوں کے کنارے دو رویا کهجوروں کے درخت ساحل سمندر پر،گهروں میں بنے باغوں میں ہر جگہ دکهائی دیتے ہیں. بدووں میں مہمان کو کهجور کهلائے بغیر رخصت نہیں کیا جاتا.کهجوروں سے متعدد میٹهے پکوان بنائے جاتے ہیں جن میں رنقینہ قابل ذکر ہے جو مکهن، آٹے اور خشک میوہ جات ملا کر بنائی جاتی ہے .کهجور کے پتوں سے پرانے زمانے میں چهتیں بنائی جاتی تهیں اور تکئیے بهروائے جاتے ہیں. یہاں کهجوروں کے موسم کو موسم رطب کہتے ہیں جب درختوں پر کچی سبز کهجوریں اگ آتی ہیں، پهر سنہری پڑنے لگتی ہیں اورموسم گرما کے عروج پر پک کر خوشبودار ،مخملیں ہو جاتی ہیں.یہاں آکر سب سے اچها عجوه کهجور کا کهانا لگا جوکہ سعودی عرب سے درآمد کی جاتی ہے. محمدصلی اللہ علیہ وسلم اکثر حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہہ کے کهجوروں کے باغ میں جایا کرتے تهے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن کی مثال کهجور کے درخت کی سی ہے.آپ کهجور کے درخت سے جو بهی لیں گے مفید ثابت ہو گا.
اور پهر دن کے ہر پہر کے ساتھ ر نگ بدلتا سمندر،کبهی چاندی جیسا کبهی سبز، کبهی نیلا کبهی سنہرا اور رات کی سیاہی میں سیاہ پڑتا. اسکے رنگ اور لہروں کا ہلکا ہلکا شور گهڑی میں ہلتے پینڈولم کی طرح وقت کے بدلنے کا احساس دلاتا ہے. وقت چاہے جیسا بهی گزر رہا ہو جب گزر جاتا ہے تو یاد آتا ہے.زندگی کا ایک ایک لمحہ قیمتی یے.ان قیمتوں لمحوں کا ادراک ہمیں تب ہوتا ہے جب ہم انہیں گنوا بیٹهتے ہیں.پهر سوچتے ہیں جن لمحوں سے ہم خوشی کشید کر سکتے تهے انہیں فقط شکوے کرنے میں گنوا دیا. کویت سٹی کی اپنی ہی فضا ہے خوبصورت اور منفرد. یہ کویت کا دارلخلافہ ہے اسلئیے بهی اس علاقے میں طرز تعمیر خاص ہے.یہاں کی فضا افسانوی سی لگتی ہے.اکثر و بیشتر لوگ بڑی تعداد میں اکهٹے سڑک عبور کرتے نظر آتے ہیں ،بعض جگہوں پر کبوتروں کی بڑی تعداد اڑتے،دانہ چگتے نظر آتی ہے. روشنیو ں سے جگمگاتی خوبصورت عمارتیں اسے مزید مزین کرتی ہیں. کویت میں زیادہ تر علاقوں میں رہائش کے لئیے اونچی ،اونچی عمارتیں ہی ہیں.شروع میں ان عمارتوں کو دیکھ کر کراچی کی یاد آتی تهی مگر کراچی میں ایک عمارت میں رہنے والے لوگ ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں جبکہ یہاں ہمسایوں کے چہرے بهی خال ،خال ہی پہچان میں آتے ہیں. اکثر ذہن میں آتا یے وہ لوگ جویہ عمارتیں تعمیر کرتے ہیں،گرمیوں میں اکثر فجر کے وقت کام کرنا شروع کرتے ہیں اور جهلستا دن چڑھ آتا ہے وہ بهی میرے اور آپ جیسے ہیں، انکے خواب اور خواہشیں بهی.گاڑی کے اندر یا کسی ریستوران کے شیشے سے ،اے سی کی ٹهنڈک میں بیٹھ کر ان عمارتوں کی جلتی بجهتی روشنیاں دیکهنا یا ساحل سمندر پر سورج کو نکلتے یا ڈهلتے دیکهنا یقینا” ایک خوبصورت نظارہ ہو سکتا ہے مگر باہر گرمی میں جهلستے، کام کرتے لوگوں کا احساس کرنا بهی ہماری ذمہ داری ہے. وہ لوگ جو کئی کئی سال اپنے وطن نہیں جا سکتے ،جن کی ماہانہ تنخواہ ہی شاید پچاس یا سو دینار ہے. کم سے کم انکے حالات کا جتنا ہو سکے علم رکهنا،ان سے مسکرا کر ملنا ،مصافحہ کرنا اور اپنی اسطاعت کے مطابق مدد کرنا ہمارا فرض ہے.دنیا میں ہر ایک شخص کی اپنی آزمائش ہے. اے سی میں بیٹهے ہوئے شخص کی بهی اور گرمی میں جهلستے ہوئے شخص کی بهی لیکن ان آزمائشوں کو زندگی کا آخر نہیں سمجھ لینا چاہیے بلکہ ہر پل نئی امید کے ساتھ آگے بڑهنا چاہیئے بالکل ایسے جیسے سیپ میں رہنا والا کیڑا ریت کے ذروں کو پهانس نہیں بننے دیتا بلکہ ان سے قیمتی موتی بنا لیتا ہے.
ام قاسم کویت