(العدان ہسپتال میں پاک ڈونرز کے زیر اہتمام ۱۳ اگست ۲۰۲۱ء کو منعقد ہونے والے بلڈ ڈوںیشن کیمپ کی مناسبت سے سَر سہیل یوسف کی تحریر)
جون 1667ء کا دن طب اور سرجری کی دنیا میں ایک عظیم ترین دن ہے جب ایک فرانسیسی طبیب ڈاکٹر باپٹسٹ ڈینس کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ خون کو منتقل بھی کیا جاسکتا ہے۔ ایک پندرہ سالہ لڑکا جو ڈاکٹر کے زیر علاج تھا اور کئی مہینوں سے بخار کے مرض میں مبتلا تھا۔ اس کا بہت سا خون کئی بار جونکیں لگوانے کے سبب ضائع ہو چکا تھا اور وہ شدید نقاہت کی حالت میں تھا۔ ڈاکٹر ڈینس نے ایک بکری کے بچے کا خون اس کے جسم میں داخل کیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ وہ لڑکا کچھ دن بعد تندرست ہو گیا۔ جدید سائنس اس واقعہ کی توضیع پیش کرنے سے قاصر ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس خون کی مقدار اس حد تک کم ہو گی کہ جس کی وجہ سے موت واقع نہیں ہوئی۔،بہرحال بعد کی مسلسل تحقیق اور تجربات کے نتیجے میں آج ہم اس قابل ہیں کہ خون کے اندر پائے جانے والے ایک ایک جزو اور خلیوں کی اقسام سے واقف ہیں۔ آج ہم جانتے ہیں کہ خون کی کتنی اقسام ہیں، ان کے اندر کس کس قسم کے ذرات ہیں اور کون سی قسم کس سے مطابقت رکھتی ہے اور کہاں عدم مطابقت کی وجہ سے موت واقع ہو سکتی ہے۔
انسان کے نظام ِدوران خون کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک انتہائی پچیدہ نظام ہے جس پر تحقیق کے نتیجہ میں لاکھوں ضخیم کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور یہ حیرت کی ایک ایسی دنیا ہے جہاں ہر روز خالق کائنات کی قدرت کے نئے نظارے انسان کو دعوت ِفکروتحقیق دے رہے ہیں۔ انسانی نظام ِدوران خون میں پائی جانے والی شریانوں، وریدوں اور رگوں کی لمبائی 66 ہزار میل سے بھی زیادہ بنتی ہے جو کرہ ٔارض کے کل قطر سے اڑھائی گنا سے زیادہ ہے۔ اس ہزاروں میل کے نیٹ ورک کے ذریعہ خون تازہ آکسیجن جسم کے ہر خلیہ تک پہنچاتا ہے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ یہ عمل انسان کی پیدائش سے بہت پہلے شروع ہوتا ہے اور آخری دم تک چلتا ہے۔ خالق کائنات کا یہ عظیم شاہکار اتنا حساس ہے کہ صرف ایک لمحہ کی رکاوٹ سے کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور انسان موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔
جدید میڈیکل سائنس کی مرہونِ مِنت انتقالِ خون محفوظ اور آسان
انسانیت جدید میڈیکل سائنس کی احسان مند ہے کہ مسلسل تحقیق اور تجربات کے نتیجے میں آج ہم اس مقام ہر کھڑے ہیں کہ کسی بھی طرح سے خون ضائع ہو جانے کی صورت میں خون کی محفوظ منتقلی سے مریض کی جان بچائی جاسکتی ہے۔ آج یہ ممکن ہے کہ خون کو مکمل طور پر جانچنے اور وصول کنندہ کے خون سے مطابقت کے بعد ایک شخص کا خون دوسرے کو منتقل کیا جا سکے۔
ہر انسان کے بدن میں تین بوتل خون اضافی ہوتا ہے اور ہر تندرست فرد ہر تیسرے مہینے خون کی ایک بوتل عطیہ کر سکتا ہے۔ WHO کی تعلیمات کی روشنی میں ہر تندرست مرد سال میں تین سے چار بار اور ہر عورت دو سے تین بار خون دے سکتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 73 ممالک مفت خون کی فراہمی کی سہولت سے محروم ہیں۔ اس ادارے کی مسلسل کوشش سے گزشتہ دس سال میں عطیہ خون کی فراہمی میں دو کروڑ تک کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کو رپورٹ کرنے والے 60 ممالک میں اس وقت تیرہ ہزار سے زائد خون کے مراکز ہیں جو براہ راست WHO کی نگرانی میں کام کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں سالانہ 100 ملین خون کی بوتلیں عطیہ کی جاتی ہیں جن کا ذیادہ تر حصہ ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے آتا ہے۔
پاکستان کی نوجوان آبادی اور عطیہ خو ن کی کَم شرح تناسب
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جس کی کل آبادی کا %60 نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اس کے باوجود ہمارے ہاں عطیہ خون کی شرح کل آبادی کی نسبت ڈیڑھ فی صد سے بھی کم ہے۔ پاکستان کو ہر سال 15 لاکھ خون کے یونٹس کی ضرورت ہوتی ہے جو زیادہ تر تبادلہ یا رشتہ داروں کی طرف سے پورے ہوتے ہیں۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے ترجمان کے مطابق انہیں ہر روز 125 یونٹس درکار ہوتے ہیں جن میں سے 100 کے قریب رشتہ داروں کی طرف سے مہیا کئے جاتے ہیں۔ خون حاصل کرنے کے تین طریقے ہیں۔ عطیہ، تبادلہ یا رشتہ داروں کی طرف سے اور فروخت۔ ماہرین ہر حوالہ سے تیسرے طریقہ کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں بہت سی خرابیاں پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اور بدقسمتی سے پاکستان کے خون کے مراکز میں حاصل ہونے والا خون سب سے زیادہ اسی ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس موضوع پر بات کریں عطیہ خون کے لئے لوگوں کو کیسے راغب کیا جا سکتا ہے اور ترغیب کے لئے کونسے طریقے اختیار کئے جا سکتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ خون عطیہ کرنے والے کو اس سے کیا فائدہ ہوتا ہے۔
عطیۂ خون، ایک صدقہ جاریہ
سب سے پہلے تو یاد رکھیئے کہ جب آپ خون عطیہ کرتے ہیں تو کسی کی جان بچاتے ہیں۔ اور اللہ تعالی نے قرآن مجید میں یہ ارشاد فرمایا کہ جس نے کسی ایک انسان کی جان بچائی درحقیقت اس نے ساری انسانیت کو بچا لیا۔ یہ ایک صدقہ جاریہ ہے اور عطیہ کرنے کے بعد آپ کو جو قلبی سکون حاصل ہوتا ہے وہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ طبی ماہرین کے مطابق ہمارے جسم میں خون کے خلیات کی کل عمر 120 دن ہے۔ تو پھر کیوں اس کو ضائع ہونے دیا جائے اور کیوں نہ خون کا عطیہ دے کر کسی کی جان بچائی جائے۔ American Medical Association کی ایک رپورٹ کے مطابق باقاعدگی سے خون کا عطیہ دینے والوں میں دل کے دورے کے %95 امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ باقاعدگی سے خون عطیہ کرنے والے %90 تک جگر کے امراض سے محفوظ رہتے ہیں۔ آج موٹاپا ایک بین الاقوامی مرض بنتا جا رہا ہے۔ آسائشوں سے بھرپور آرام دہ زندگی نے یہ ایک نئی مصیبت انسان کے لیے کھڑی کر دی ہے۔ آج ہر جگہ لوگ آپ کو اس مسئلہ سے پریشان نظر آئیں گے اور چالیس سال کی عمر سے زائد شائد ہی کوئی خوش قسمت ہو گا جس کا BMI اس کے قد کے مطابق ہو گا۔ طبی ماہرین کے مطابق موٹاپے کا ایک آسان حل باقاعدگی سے خون عطیہ کرنا ہے۔ خون عطیہ کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ خون دیتے وقت آپ کے سات مختلف قسم کے ٹیسٹ کئے جاتے ہیں۔ یہی ٹیسٹ اگر آپ کسی لیب سے کروائیں تو ہزاروں روپے ادا کرنے پڑیں۔ جبکہ یہاں یہ بالکل فری میں ہو جاتے ہیں۔ اور ڈونر کسی بھی پوشیدہ بیماری کے لاعلاج ہونے سی پہلے اس سے بچ جاتا ہے جس سے وہ لاعلم ہوتا ہے۔
انسانیت کی خدمت کے بہت سے طریقوں میں سے ایک عطیہ خون بھی ہے۔ آئیے بیداری پھیلائیں اور اس امر کو یقینی بنائیں کہ ضرورت مند افراد کو محفوظ اور معیاری خون بروقت اور قابل استطاعت شکل میں مل سکے۔ رضاکارانہ خون عطیہ کرنے کے رویہ کو پروان چڑھائیں اور ان افراد کی حوصلہ افزائی کریں جو خود خون عطیہ کرتے ہیں اور لوگوں کو ترغیب بھی دیتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو زندگیوں کو چراغاں رکھتے ہیں۔ حکومت وقت کے ساتھ ساتھ ہر شہری کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اس ذمہ داری کو محسوس کرے۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل اقدامات سے خاطر خواہ نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
1) سرکاری سطح پر نصاب تعلیم کو مربوط بناتے ہوئے خون عطیہ کرنے کے حوالے سے مضامین نصاب میں شامل کر دیئے جائیں۔ اس سلسلے میں اردو اور انگریزی زبان کی تدریسی کتب میں اس کو شامل کر کےآسانی سے ذہنوں کی آبیاری کی جا سکتی ہے۔
2) ضلعی سطح پر ایسے سیمینارز منعقد کئے جائیں جو لوگوں کے لئے ترغیب کا باعث بن سکیں۔
3) باقاعدگی سے خون عطیہ کرنے والوں کو مختلف اعزازات اور سرٹیفیکیٹس سے نوازا جائے تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو اور دوسروں کے لئے تحریک کا سبب بنے۔
4) اس حوالے سے میڈیا کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ میڈیا کے ذریعے ایسی تشہیری مہم چلائی جائے کہ لوگ اس طرف راغب ہوں۔ سینما اور تھیٹر کو استعمال کر کے اچھا نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
5) کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بلڈ ڈونیشن کیمپوں کا اہتمام کیا جائے۔
6) یونیورسٹی میں داخلے اور سرکاری ملازمت کے حصول کے وقت ہر تندرست شہری کے لئے خون عطیہ کرنا لازم قرار دیا جائے۔
7) دینی مدارس ہمار ے معاشرے میں ایک اہم کردار رکھتے ہیں۔ علماء اور خطبا کو اعتماد میں لیا جائے اور ان کو اس کی اہمیت سے روشناس کرایا جائے۔ دینی مدارس کے طلباء کی طرف سے اس میں بڑا حصہ ادا کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ دنوں کراچی کے ایک دینی مدرسے کی طرف سے ہزاروں بوتلوں کا عطیہ کیا جانا قابل تحسین ہے۔
8) اگر ممکن ہو تو ہر شہر میں باقاعدگی سے خون عطیہ کرنے والوں کا ڈیٹا نادرہ سے لنک کر دیا جائے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق
Every Blood Donor is a Hero
آئیے اپنے حصہ کا کردار ادا کریں اور وطن عزیز پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں لے جائیں جو عطیہ خون میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ آئیے ان لوگوں کی مدد کریں جو سڑک کے حادثات میں زخمی ہو کر ہسپتال پہنچتے ہیں اور رشتہ داروں کے آنے تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ آئیے پاکستان کے ہر ہسپتال کو اس قابل بنا دیں کہ اسے خون کی ضرورت کے وقت اپیل نہ کرنی پڑے۔ آئیے خون عطیہ کریں کہ کل ہمیں بھی اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
یاد رکھیئے
ایک بوتل خون کسی خاندان کی زندگی بھر کی خوشیوں کی ضامن ہو سکتی ہے۔ خون عطیہ کیجئیے، یہ زندگی سے زیادہ قریب ہے۔