پاکستان سے تشریف لائے معروف اسلامی سکالر سید احمد ثقلین حیدر صاحب کا خصوصی خطاب
اولیاء اللہ کی پوری زندگی اللہ کی رضا کے مطابق بسرہوئی ہے، انکی تعلیمات اور طریقے پر چل کر زندگی کو بہترین بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان قرأت و نعت کونسل کویت تعلیم و تربیت کا بہترین پلیٹ فارم ہے، کامیابی کے لیے دعاگو ہوں۔ سید احمد ثقلین حیدر
پیر سید احمد ثقلین حید ر صاحب کی تشریف آوری پاکستان قرأت و نعت کونسل کویت کے لیے اعزاز کی بات ہے۔ سرپرست اعلیٰ PQNCKشمشاد خان تنولی
پاکستان قرأت و نعت کونسل کویت نوجوان نسل میں قرآن و حدیث کی تعلیمات کو عام کرنے کا مشن جاری رکھے گی۔ بانی و صدر PQNCKمحمد عرفان عادل
پاکستان قرأت و نعت کونسل کویت کے زیر اہتمام کویت کے بیشتر علاقوں میں قرآن و حدیث کی کلاسز باقاعدگی سے جاری ہیں۔ نائب صدرPQNCKقاری طلعت شریف نقشبندی
پاکستان قرأت و نعت کونسل کویت کے زیر اہتمام شانِ اولیاء کانفرنس کا انعقاد مورخہ 27جنوری2017 بروز جمعۃ المبارک بعد از نماز عشاء مدرسہ میلاد ہاوٗس جلیب الشیوخ میں ہوا۔ جس میں کویت کے طول و عرض سے کثیر تعداد میں فرزندانِ توحید نے شرکت کی۔ تلاوت قرآن حکیم اور نعت رسول مقبول ؐ پیش کرنے والوں میں محمد ایوب، رانا محمد عرفان، محمد نواز جبکہ نقابت کے فرائض قاری وحید احمد چشتی نے انجام دیے۔ اے این پی کویت کے صدر ڈاکٹر جہانزیب، پاکستان قرأت و نعت کونسل کویت کے سرپرست اعلیٰ شمشاد خان تنولی، بانی وصدر محمد عرفان عادل اور دیگر عمائدین نے خصوصی شرکت کی۔ شان اولیاء قرآن و حدیث کی روشنی میں خطاب کرتے ہوئے معروف اسلامی سکالرپیر سید احمد ثقلین حیدر نے کہا کہ قرآنِ مجید کا انداز اور اُسلوبِ بیان اپنے اندر حِکمت و موعظت کا پیرایہ لئے ہوئے ہے۔ اِسی موعظت بھرے انداز میں بعض اَوقات آیاتِ قرآنی کے براہِ راست مخاطب حضور سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہوتی ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے پوری اُمت کو حکم دینا ہوتا مقصود ہے۔
قرآن مجید کی درج ذیل آیتِ کریمہ میں اللہ ربّ العزّت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِرشاد فرمایا (اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو اُن لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے ربّ کو یاد کرتے ہیں، اُس کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں، تیری(محبت اور توجہ کی) نگاہیں اُن سے نہ ہٹیں۔ کیا تو (اُن فقیروں سے دِھیان ہٹا کر) دُنیوی زندگی کی آرائش چاہتا ہے؟ اور تو اُس شخص کی اِطاعت بھی نہ کر جس کے دِل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دِیا ہے اور وہ اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے اور اُس کا حال حد سے گزر گیا ہے۔ اِس اِرشادِ ربانی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط سے اُمتِ مسلمہ کے عام افراد کو یہ حکم دِیا جارہا ہے کہ وہ اُن لوگوں کی معیت اور صحبت اِختیار کریں اوراُن کی حلقہ بگوشی میں دِلجمعی کے ساتھ بیٹھے رہا کریں، جو صبح و شام اللہ کے ذِکر میں سرمست رہتے ہیں اور جن کی ہر گھڑی یادِالٰہی میں بسر ہوتی ہے۔ اُنہیں اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے کسی اور چیز کی طلب نہیں ہوتی، وہ ہر وقت اللہ کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں۔ یہ بندگانِ خدا مست صرف اپنے مولا کی آرزو رکھتے ہیں اور اُسی کی آرزو میں جیتے ہیں اور اپنی جان جاںآفریں کے حوالے کردیتے ہیں۔ ا? کے ولیوں کی یہ شان ہے کہ جو لوگ ا? تعالیٰ کے ہونا چاہتے ہیں اُنہیں چاہئیے کہ سب سے پہلے وہ ان اولیاء اللہ کی صحبت اِختیار کریں۔ چونکہ وہ خود اللہ کے قریب ہیں اور اِس لئے اللہ تعالیٰ نے عامۃ المسلمین کو اُن کے ساتھ جڑ جانے کا حکم فرمایا ہے۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے یہی قرآنی نکتہ اپنے اِس خوبصورت شعر میں یوں بیان کیا ہے
ہر کہ خواہی ہمنشینی با خدا
اُو نشیند صحبتے با اولیاء
اَصحابِ کہف پر خاص رحمتِ الٰہی
قرآن فہمی کے باب میں ربط بین الآیات بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اِس حوالے سے جب ہم سورۃ کہف کا مطالعہ کرتے ہوئے آیاتِ قرآنی کا ربط دیکھتے ہیں تو سورۃ مبارکہ میں بیان کردہ واقع اصحابِ کہف اپنی پوری معنویت کے ساتھ ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ یہ پہلی اُمت کے وہ اَولیاء اللہ تھے جو اللہ کے دِین اور اُس کی رضا کے لئے دُشمنانِ دین کے ظلم و سِتم سے بچنے کے لئے اپنے گھروں سے ہجرت کر گئے اور ایک غار میں پناہ حاصل کرلی اور وہاں بحضورِ خداوندی دعاگو ہوئے۔ اے ہمارے ربّ! ہمیں اپنی بارگاہ سے خصوصی رحمت عطا فرما اور ہمارے کام میں راہ یابی (کے اَسباب) مہیا فرماo
اُن کی دعا کو شرفِ قبولیت بخشتے ہوئے باری تعالیٰ نے اُنہیں اِس مُژدہ جانفزا سے نوازا کہ تمہارا ربّ ضرور اپنی رحمت تم تک پھیلا دے گا۔ اَب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ خاص رحمت جس کا ذکر قرآن کریم میں مذکور ہے، کیا تھی؟ یہاں قرآنِ مجید کے سیاق و سباق کا عمیق مطالعہ کیا جائے تو اصحابِ کہف کے حوالے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ غار میں 309 سال تک آرام فرما رہے۔ کھانے پینے سے بالکل بے نیاز قبر کی سی حالت میں 309 سال تک اُن جسموں کو گردشِ لیل و نہار سے پیدا ہونے والے اَثرات سے محفوظ رکھا گیا۔ سورج رحمتِ خداوندی کے خصوصی مظہر کے طور پر اُن کی خاطر اپنا راستہ بدلتا رہا تاکہ اُن کے جسم موسمی تغیرات سے محفوظ و مامون اور صحیح و سالم رہیں۔ 309 قمری سال 300 شمسی سالوں کے مساوِی ہوتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ کرہ ارضی کے 300 موسم اُن پر گزر گئے مگر اُن کے اجسام تروتازہ رہے۔ اور تین صدیوں پر محیط زمانہ اُن پر اِنتہائی تیز رفتاری کے ساتھ گزر گیا۔ قرآنِ مجید فرماتا ہے۔
اور آپ دیکھتے ہیں جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اُن کے غار سے دائیں جانب ہٹ جاتا ہے اور جب غروب ہونے لگتا ہے تو اُن سے بائیں جانب کتراجاتا ہے اور وہ اُس کشادہ میدان میں (لیٹے) ہیں۔
اللہ کی خاص نشانی یہی ہے کہ اس نے اپنے ولیوں کے لئے 309 قمری سال تک سورج کے طلوع و غروب کے اُصول تک بدل دیئے اور ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ کی رُو سے ایک معین نظامِ فلکیات کو سورج کے گرد زمین کی تین سو مکمل گردشوں تک کے طویل عرصے کے لئے صرف اِس لئے تبدیل کردیا گیا اور فطری ضابطوں کو بدل کر رکھ دیا گیا تاکہ اُن ولیوں کو کوئی گزند نہ پہنچے۔
اللہ ربّ العزّت نے اِس پورے واقعے کو بیان کر کے اِسی تناظر میں یہ اِرشاد فرمایا: ’’اگر لوگ میرا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں تو میرے اِن مقرّب بندوں کے حلقہ بگوش ہو جائیں۔ پھر آگے چل کر اِرشادِ ربانی ہوا اللہ جسے ہدایت دیتا ہے وہی راہِ ہدایت پر ہے اور جس کو وہ گمراہ کردے تو آپ کسی کو اُس کا دوست نہیں پائیں گے۔
سرپرست اعلیٰ PQNCKشمشاد خان تنولی نے اس موقع پر کہا کہ پیر سید احمد ثقلین حید ر صاحب کی تشریف آوری پاکستان قرأت و نعت کونسل کویت کے لیے اعزاز کی بات ہے۔ بانی و صدر PQNCKمحمد عرفان عادل نے کہا کہ پاکستان قرأت و نعت کونسل کویت نوجوان نسل میں قرآن و حدیث کی تعلیمات کو عام کرنے کا مشن جاری رکھے گی۔ آخر میں گفتگو کرتے ہوئے نائب صدرPQNCKقاری طلعت شریف نقشبندی نے کہا کہ پاکستان قرأت و نعت کونسل کویت کے زیر اہتمام کویت کے بیشتر علاقوں میں قرآن و حدیث کی کلاسز باقاعدگی سے جاری ہیں۔ اسکے بعد ہدیہ سلام پیش کیا گیا اور تمام اُمت مسلمہ کے لیے خصوصی دعا کرائی گئی اور حاضرین کی تواضع عشائیے سے کی گئی۔ اسطرح یہ روحانی محفل اپنے اختتام کو پہنچی۔