جیوے پاکستان ۔ 14 اگست پاکستان کا منظر

ہر طرف سبز  ہلالی پرچم دیکھائی دے رہے ھیں کوئی گلی کوئی محلہ ایسا نہیں جہاں پاکستانی پرچم نہ دیکھائی دیتا ہو گھروں  بازاروں اور دکانوں میں دلفریب  برقی قمقمے  لگے  ہیں   جو عموماََ رات کی تاریکی میں مناظر کو اوردلکش بناتے  ہیں ہر دکان ہر گھر میں قومی ترانے، ملی نغمے بجا  بجا  کے جذبہ حب الوطنی کا اظھار کیا جا رہا ہے ٹیلی ویژن  پر  پاکستان کے معرض وجود میں آنے  کے مناظر دکھاۓ جا رہے ھیں اور بتایا جا رہا ہے کے ہمارا پیارا وطن پاکستان کتنی قربانیوں اور جدوجہد  کے بعد وجود میں آیا.

حکومت کی طرف سے عام تعطیل کی وجہ سے گھر کے سربراہان کی اکثریت اپنے گھروں میں ٹی وی کے   سامنے براجمان ١٤ اگست کی  خصوصی نشریات سے لطف اندوز ھو رہے ہیں اور بیگمات مزیدار چٹ پٹے پکوان تیار کرنے میں مصروف ہیں ، بچے اپنے اپنے کمروں میں جھنڈیاں لگانے میں مصروف اور کچھ اپنے چہروں پر جشن آزادی مبارک اور جھنڈے پینٹ کروا کر گلی محلوں میں  دیوانہ وار پاکستان زندباد اور جیوے پاکستان کے نعرے لگا کر حب الوطنی کا اظھار کر رہے ہیں ، وہیں چند منچلے نوجوان  ہیر کٹنگ کی دکانوں پر  اپنے بالوں کی حجامت (واجبی قربانی ) کروا کر پاکستانی جھنڈے کے ڈیزائن بنوا رہے ھیں یہ وہ نوجوان ھیں جو عام دنوں میں اگر کوئی بال کٹوانے کا کہہ دے تو اسے واجب القتل سمجتھے ھیں کیوں کے بال انسان کی خوبصورتی میں نہایت اہم  کردارادا کرتےھیں اورکوئی بھی نوجوان یہ خوبصورتی کھونا نہیں چاہتا، لیکن جذبہ حب الوطنی سےسرشار یہ نوجوان١٤ اگست کو اپنے بالوں  کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتے  آخر کیوں نہ کریں؟

اگر گورنمنٹ ( جو تقریبا ہر شعبے میں خسارے میں ہے)   اپنے سارے مفادات کو قربان کر کے ١٤ اگست کی چھٹی دے سکتی ہے، تعلیمی ادارے ( جو عموما آج کل  تعلیم کے نام پر بزنس کرتے ہیں) بچوں کی تعلیم کو  ١٤ اگست پر قربان کر کےچھٹی دےسکتے ہیں اور مولانا حضرات اپنے قیمتی وقت(  مطلب  وہ وقت جو شیعہ سنی وہابی بریلوی سلفی دیوبندی حضرات اپنے اپنے مسلک کو صحیح ثابت کرنے میں مناظرے کرنے اور فتوے دینے میں گزارتے ہیں)  قربان کر کے پاکستان کے استحکام، سالمیت اور ترقی کیلئے خصوصی طور پر دعاؤں کا اہتمام کر سکتے ھیں، سیاست دان حضرات اپنا قیمتی وقت  قربان کر کےپاکستان کی ترقی کے بلندوبانگ دعوے اور وعدے کرسکتے ھیں(جو صرف  دعوے اور وعدے ہی  رهتے ھیں) کچھ (ناٹ آل ) ٹی وی چینلز ترکی اور انڈین ڈرامے اور انڈین فلمز اور پروگرام  قربان کر کے  اگر ١٤ اگست کو  قومی ترانے  ملی نغمے اور  پاکستان آرمی کی پریڈ دکھا سکتے ھیں(مجبوری کے تحت  اپنی پاکستانیت ثابت کرنے کے لئے) تو پھر بالوں کی قربانی تو معمولی بات ہے. ان قربانیوں کے سامنے جو قربانیاں پاکستان بناتے وقت دی گئی تھی ان گنت قربانیاں ( جیوے پاکستان)

(دن١٤ اگست کویت کا منظر)

اسی دن وطن سے میلوں دور کویت میں نعیم معمول کے مطابق الارم کی آواز سن کر ٹھیک ٧ بجے اٹھ گیا تھا کیوں کےوہ  ڈیوٹی سے تاخیر کا بلکل  متحمل  نہیں ہو سکتا تھا آفیسرز کی ڈانٹ کی وجہ یا تنخواہ کی کٹوتی  سے نہیں ،بلکہ  یہ نعیم   کی وہ عادت تھی جس کی وجہ سے وہ پچھلے ٥ سال سے وہ اپنے آفس میں ایک نمایاں امتیاز رکھتا تھا اور ہمیشہ ٹائم کی پابندی کرنے کی وجہ  سے آفیسرز بھی اسے پسند کرتے تھے اورعزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے  ایک اجنبی ملک میں یہ بات نعیم کیلئے کسی اعزاز سے کم نہیں تھی اور اسکے لئے یہ اعزاز  کے ساتھ ساتھ   مجبوری بھی تھی  کیونکے کویت  میں ایک اچھی نوکری ملنا  ہمیشہ سے مشکل کام رہا  ہے(جیسا ہم سب جانتے ہیں) اسلئے ہمیشہ ڈیوٹی سے  ١ گھنٹہ پہلے ہی بیدار ہونا اس کا معمول بن چکا تھا  غسل سے فارغ ہو کر کچن میں چاۓ بناتے ہووے (اچانک فون پر میسج کی گھنٹی )

(میسج ریڈنگ)

"جشن آزادی مبارک”

"پاکستان زندہ باد”

١٩٤٧ میں آج کے دن ہم ایک آزاد قوم قرار دیے گئے اپنے آباؤ اجداد کی بیشمار قربانیوں کے نتیجے میں ہمیں یہ انعام ملا کے ہم اپنے آپ کو ایک آزاد قوم کہہ سکیں

(جیوے پاکستان)

یہ میسج نعیم کے چھوٹے بھائی نے پاکستان سے کیا تھا  ( نعیم ڈیوٹی کے لئے گھر سے نکلتے سوچتے ہوۓ)   میسج کی عبارت کا وہ حصہ  (بیشمار قربانیاں ) کیا یہ قربانیاں صرف ١٩٤٧ تک ہی محدود تھیں؟  نعیم اپنی ٥ سالہ زندگی پر نظر ڈالتے ہوۓ جہاں صرف قربانیاں ہی قربانیاں نظر آ رہی تھیں، جہاں تک اسے یاد تھا ان قربانیوں کی شروعات اس وقت ہوئی  جب  پاکستان میں انتھک کوششوں سے کوئی بھی جاب حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد پردیس میں قسمت آزمائی  کا ارادہ کیا  تو بس اس کے بعد  جیسے قربانیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا.

ویزہ خریدنے کے لئے آبائی زمین کی قربانی ٹکٹ خریدنے کے لئے امی جان کے زیورات کی قربانی میڈیکل کروانے کے لئے ابو کی  ریٹائرمنٹ فنڈ کی قربانی اورصرف  یہیں تک  نہیں اپنے ماں باپ بہن بھائی رشتے داروں بیوی بچوں کےپیار  محبت کی قربانی ماں کے ہاتھوں کے بنے کھانے اور دھلے کپڑوں کی قربانی، اور تو اور خاندانی خوشی غمی کے لمحات میں  تو اپنی جگہ رمضان عید شبرات جیسے تہوار گھر والوں سے دور منانے کی قربانی اپنے گھر والوں کی ضروریات کے لئے اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کی قربانی…………

(سوال) وہ یہ سب کس کے لئے کر رہا تھا کیا اس کی یہ قربانیاں پاکستان کے لئے نہیں کیا وہ ایک حب الوطن پاکستانی کہلانے کا حقدار نہیں؟ کیا وہ ایک پاکستانی ہونے کی قیمت چکا رہا ہے؟ اور نعیم چلتے چلتے گذشتہ دنوں کی سرخیاں یاد کرتے ہوۓ بیرون ملک پاکستانیوں پر سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے نۓ ٹیکس کا نفاذ(ایک اور قربانی) بیرون ملک پاکستانیوں  کی کالز پر ٹیکس کا نفاذ (ایک اور قربانی) اور مستقبل میں مزید ٹیکس لگاے جانے کا امکان جس میں زر مبادلہ پر ٹیکسز کی سمری  قابل  غور.

(فلاں سیاست داں) کروڑوں کے اثاثے ہونے کے باوجود صرف ٥٠٠٠ روپے  ٹیکس ،   وزیراعظم حکومتی اخراجات پر اپنے اہل وعیال کے ہمراہ بیرون ملک روانہ ہونے پر عدالت میں کی گئی درخواست مسترد عدالت کے مطابق سرکاری مراعات دینا حکومتی پالیسی کا حصہ ہیں عدالت اس میں مداخلت نہیں کر سکتی ، اور وہ  نام نہاد سیاست داں ١٤ اگست کو اپنی خدمات اور قربانیوں کا ذکر(جو اصل میں عوام کی خدمات اور قربانیاں ہیں) کرتے ہوۓ

سارا کریڈٹ اپنے نام کرتے ہوۓ بیرون ملک پاکستانیوں کی پریشانیوں سے لاعلم پاکستان زندہ باد جیوےپاکستان کےنعرے لگاتے ہوۓ.

اورنعیم جیسے لاکھوں کروڑوں لوگ جن کی تمام زندگی ہی قربانیاں دیتے گزری ہے اورشاید مرتےدم تک یہ سلسلہ جاری رہنے کا امکان ہے کیا ان  کی یہ قربانیاں کسی کو نظرنہیں آتیں ؟

اور اگر آتی ہیں تو بیرون ملک پاکستانیوں پر ٹیکسز کا نفاذ کیوں؟ اور اگر  نام نہاد سیاست داں عوام کے ٹیکسز سے سرکاری مراعات حاصل کرسکتے ہیں تو کیا نعیم جیسے کروڑوں بیرون ملک پاکستانی جو صحیح معنوں میں پاکستان کی خدمت کر  رہے ہیں  ٹیکس فری نہیں کیے جا سکتے ؟ (سوال حکومت پاکستان سے)

کیا نعیم جیسے لوگ پاکستان کی بےلوث خدمت نہیں کر رہے؟

نعیم یہ سب سوچتے ہوۓ سنہرے مستقبل کی امید  آنکھوں میں لئے اپنے آفس کے راستے پر رواں دواں دل ہی دل میں نعرہ لگاتے ہوۓ

جیوے پاکستان

جو دیکھتا ہوں وہ ہی بولنے کا عادی ہوں

میں اپنے شہرکا سب سے بڑا فسادی ہوں (جون ایلیا)

فیصلہ پاکستانی عوام پر

تحریر: (رضوان بھٹی)      

Exit mobile version