کویت میں تارکین وطن پر نئے ٹیکسز لگانے کی تجاویز پیش

کویت میں تارکین وطن پر نئے ٹیکسز لگانے کی تجاویز پیش 1

کویت کے معروف صحافی  خالد الجنفویی نے  ملکی  آمدن میں اضافہ کے لئے  تارکین وطن پر مزید ٹیکسز لگانے پر زور دیا ہے۔ انہوں نے ذرائع  کے حوالے سے کہا کہ حکومت کو خارجی افراد کے علاج معالجے پر کثیر رقم خرچ کرنی پڑتی ہے جو کہ قومی خزانہ پر اضافی بوجھ ہے۔

روزنامہ النہار کے مطابق وزارت صحت غیر ملکی افراد کی میڈیکل فیس میں ۳۰ سے ۵۰ فیصد تک اضافہ پر غور کر رہی ہے۔ خالد الجنفویی  کے خیال میں قومی خزانہ پہ اضافی بوجھ کو کم کرنے کے لئے غیر ملکی افراد کی  میڈیکل فیس میں اضافہ ایک اچھا فیصلہ ہوگا۔

انہوں نے مختلف رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کویت میں غیر ملکی افراد کے لئے  تشخیصی ٹیسٹوں اور ادویات کی  قیمتیں باقی ممالک کی نسبت کافی کم ہیں  اور حکومت صحت کے شعبہ کو متوازن  اور موثر رکھنے کے لئے خاطر خواہ سبسڈی دیتی ہے۔ انہوں نے مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ   کسی دوسرے  ملک  میں انہی طبی سہولیات کی کویتی شہریوں کو مفت فراہمی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا بلکہ  کسی دوسرے ملک میں رہائش یا سفر کے دوران  انہیں کویت میں فراہم کی جانے والی طبی سہولیات کے معیار  کے  متوازی  علاج معالجے کے لئے خطیر رقم خرچ کرنی پڑتی ہے اور  میرے خیال میں کویت تقریبا واحد ملک ہے جو  غیر ملکی افراد کو مفت یا  خرچ طبی سہولیات فراہم کرتا ہے۔

تیل کی قیمتوں اور آمدن  میں کمی کے بعد یہ ایک غیر منطقی بات ہوگی کہ حکومت اضافی خرچوں میں کمی کے لئے اقدامات نہ کرے، خاص کر تارکین وطن کے علاج کیلئے مختص خرچوں میں میں کمی کی جانی چاہیے اور یہ رقم کویتی شہریوں کے  علاج پرخرچ کی جانی چاہیے۔

[highlight]

انہوں نے  اس بات پر زور دیا کہ حکومت غیر ملکی افراد پہ مزید ٹیکسز کا نفاذ کرے  اور امیگریشن فیس،رقوم کی منتقلی پر ٹیکس، اور ڈرائیونگ لائسنس  کی فیس میں اضافیہ کیا جائے اور خارجی افراد کے  پاس موجود  گاڑیوں میں بھی کمی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کویت کی سڑکوں پر صرف کویتی شہری سفر کرتے تو آج کویت  میں شاہراہوں اور ھائی ویز  کی حالت بہت  بہتر ہوتی۔ ہم خارجی افراد کی کویت ایئر پورٹ  آمد اور روانگی پر ٹیکسز لگا کر ملکی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ  خارجی افراد کو مہیا کی جانے والی خدمات کی فیس میں دوگنا یا تین گنا اضافہ کردیا جائے۔

[/highlight]

خالد الجنفویی  کا یہ آرٹیکل  کویت ٹائمز کے ۶ اپریل ۲۰۱۵ کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔

Exit mobile version