چھوٹی سی نیکی: اقراء طارق

چھوٹی سی نیکی: اقراء طارق 1

رمضان محض روزے رکھنے اور عبادت کرنے کا نام نہیں ہے۔ سارا دن بھوکا پیاسا رہنا ہمیں اُن لوگوں کی یاد دلاتا ہے جنھیں دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے میسر ہے۔

انسان کی شخصیت اور کردار میں بہتری لانے کے ساتھ ساتھ رمضان نیکی کرنے اور دوسروں کے کام آنے کا درس بھی دیتا ہے۔ ا س با برکت مہینے میں ایک چھوٹی سی نیکی کا اجر بھی بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔ نیک کام کرنے سے ہی ہم اس مہینے کے حقیقی مقصد کو پہچان سکتے ہیں۔

رمضان کے اختتام پہ دنیا بھر کے مسلمان انتہائی جوش و خروش کے ساتھ عید الفطر مناتے ہیں۔ یہ وقت مالی طور پہ کمزور خاندانوں کے لیے بہت کٹھن ہوتا ہے۔ کیونکہ اس مہنگائی کے دور میں غریب اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی مشکل سے دیتا ہے کجا کہ عید کے لیے نِت نئے لباس لے کے دینا۔ عید کا دن تمام لوگوں خصوصاً بچوں کے لیے بہت اہم دن ہوتا ہے۔ وہ زندگی کی تلخ سچائیوں سے ناواقف ہوتے ہیں اور عید کے موقع پہ رنگ برنگ ملبوسات چاہتے ہیں۔ ننھی آنکھوں میں جلتے امید کے دیپ کسی رحم دل کی راہ تکتے ہیں۔

ویسے تو ضرورت مندوں کے کام آنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ لیکن بچے چونکہ بہت حساس ہوتے ہیں ۔ اور خیرات کےطور پہ کوئی چیز پکڑتے ہوئے اُن کی عزتِ نفس بہت حد تک مجروح ہوتی ہے۔ اس لیے اس بار کچھ الگ کریں۔ عید کے حوالے سے جو بھی چیز آپ دینا چاہتے ہیں ، اُسے ایک خوبصورت گفٹ کے طور پہ پیش کریں۔ اپنے گھر میں موجود بچوں کو بھی اس کام میں شامل کریں تا کہ اُن میں بھی دوسروں کے کام آنے کا جذبہ پیدا ہو۔ اگر آپ کوئی نئی چیز نہیں خرید سکتے تو اپنے پاس پہلے سے موجود کوئی چیز جو بہتر حالت میں ہو وہ بھی گفٹ کر سکتے ہیں۔ اس طرح آپ اُن کے والدین کا ہاتھ بھی بٹا دیں گے۔اوریقین جانیں جب بچوں کو خیرات کی بجائے گفٹ ملیں گے تو یقیناً اُن کے حساس دلوں کو ٹھیس نہیں پہنچے گی۔ اور وہ بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں گے۔
اپنے آس پاس نظر دوڑائیں ۔ گلی محلے میں ہی بہت سے ایسے سفید پوش خاندان مل جائیں گے ۔ جو خدا سے دعا کرتے ہیں کہ غیب سے اُن کی مد د کی جائے۔ ایسے لوگوں کی دعا کی قبولیت بن جائیں۔

ہم میں سے بہت سے لو گ سوچتے ہیں کہ جب وہ امیر ہو جائیں گے تو کیسے لوگوں کے کام آیا کریں گے۔جبکہ میرے خیال میں خدا ہر کسی کو ہر روز نیکی کرنے کا موقع ضرور دیتا ہے چاہے وہ نیکی راستے سے پتھر ہٹانے جتنی یا کسی کے افسردہ چہرے پہ مسکراہٹ لانے جتنی ہی کیوں نہ ہو۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ جب جتنی نیکی میسر ہو کر ڈالیں۔ کیونکہ ضرورت سے زیادہ جو بھی ہمیں دیا جاتا ہے وہ ہمارے پاس ضرورت مندوں کی امانت ہوتا ہے اور امانتیں لوٹانے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔

Exit mobile version