بھکارن کی ہتھیلی

 تحریر: عامر شہزاد

امریکا کی طرف سے پچھلے 6 ماہ سے غیر سرکای سطح پر پاکستان کے جوہری پروگرام پر اعتراضات ، آٹھ ایف سولہ طیاروںکی فراہمی سے انکار،شکیل آفریدی کی’’ باعزت‘‘ رہائی اور کولیشن فنڈ سے 45کروڑ ڈالر زکی کٹوتی کے علاوہ ڈومور کے احکامات پاک امریکا تعلقات میں سردمہری کی وجہ بنے ۔وزیر دفاع خواجہ آصف کی طرف سے بیان دیا گیا کہ اگر امریکا ایف سولہ طیارے نہیں دیتا تو ہمارے پاس اور منڈیاں بھی ہیں۔یہ تو تھا ایک مقروض ملک کے وزیر دفاع کا بیان،دوسری طرف سپر پاور امریکا کا ردعمل ذرا دیکھیں،امریکی وزیر خارجہ پاکستان اور افغان حکومت کو ’’اطلاع‘‘ کرتے ہیں کہ ہم نے بلوچستان کے ضلع نوشکی کے قصبے احمد وال میں ہائی وے پر چلتی ہوئی ایک گاڑی کو ڈرون حملے کا نشانہ بنا دیا ہے ۔امریکی وزیر خارجہ کی اس اطلاع کی تصدیق خود وزیر اعظم نواز شریف فرماتے ہیں کہ امریکا نے ڈرون حملے کے بعد ہمیں بتایا۔اب گاڑی میں ولی محمد مرتا ہے یا افغان طالبان لیڈر ملا محمد اختر منصور ، پاکستان کی طرف سے تصدیق ہونا ابھی باقی ہے۔لیکن پاکستان کے لئے اصل مسئلہ امریکا بہادرکا بلوچستان کے شہری علاقے میں ڈرون حملے کی ابتدا ہے ۔اس کے ساتھ ہی امریکی صدر اوباما نیطالبان رہنما ملا اختر منصور کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سمیت جہاں کہیں بھی امریکی مفادات کو خطرہ لاحق ہو گا وہاں کارروائی کریں گے،جواب میںپاکستانی حکام نے ’’نرم احتجاج ‘‘ کے طور پر امریکی سفارت کار سے ڈرون حملے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔تا کہ میڈیا پر خبر چل جائے۔

آپ کو اطلاع پہلے ملی یا بعد میں،اب تو ڈرون حملہ ہو چکا۔سابق صدر پرویز مشرف بھی اپنے ہر انٹرویو میں بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ میرے دور میں تو چند ہی ڈرون اٹیک ہوئے تھے،باقی سینکڑوں ڈرون حملے تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومت میں ہوئے ہیں۔اسی طرح مستقبل میں نواز شریف بھی بلوچستان پر ہونے والے پہلے ڈرون حملے کا ’’کریڈٹ‘‘لیا کریں گے۔ڈرون حملوں کی ابتدا کرانے والے حکمرانوں کو مختصرا بتانا ضروری ہے کہ2015 تک تقریبا419 ڈرون حملے ہوئے ۔جن میں تقریبا 4 ہزار افراد لقمہ اجل بنے ۔ ان میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔ ہم دنیا کی ساتوں ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود امریکا کو پاکستانی سرزمین کی پامالی سے نہیں روک سکتے۔ہم 4 ہزار پاکستانیوں کو ڈرون حملوں کے ذریعے موت کے منہ میں دھکیل کراور پرائی لڑائی میں 70ہزا رافراد کی لاشیں اپنے کندھے پر اٹھا کر ’’نرم احتجاج‘‘ کو کافی سمجھتے ہیں۔

ہم احتجاج کرنے سے بھی کیوں کتراتے ہیں ؟۔کیونکہ ہم متحد نہیں ہیں ۔ ہم آپس میں گلے تو ملتے ہیں ،پر اندر ہی اندر سے ڈرتے ہیں ۔ہم ایک پیج پر ہونے کا ڈھنڈورا تو پیٹتے ہیں پرلاٹھی والا ہاتھ دیکھ کر سہم جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے پاک فوج طورخم سرحدکی چیک پوسٹ پر 4 کروڑ کی لاگت سے ٹرمینل گیٹ لگاتی ہے ۔تاکہ افغانستان سے آنے والے لوگوں اور ان کے سامان کی نگرانی کی جاسکے۔ طورخم بارڈر پر افغانستان سے چار روزکشیدگی رہنے کے بعدخود جنرل راحیل شریف نے افغان سفیر کے ساتھ مل کر سرحد کھولنے کا اعلان کیا ۔پھر اچانک ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے ایک ٹویٹ کے ذریعے حکومت کوپتا چلتا ہے کہ انگور اڈا جیسا حساس علاقہ افغان حکومت کو جذبہ خیر سگالی کے تحت دے دیا گیاہے۔جس پر وزیر داخلہ چوہدری نثار شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کو پیغام پہنچاتے ہیںکہ پاکستان کی ایک ایک انچ زمین ہمارے پاس قومی امانت ہے۔ اگر اس میں سے کچھ کسی کے حوالے کرنا ہے تو اس کا آئینی و قانونی راستہ موجود ہے جو انگور اڈا چیک پوسٹ افغانستان کے حوالے کرتے وقت نہیں اپنایا گیا۔انگور اڈا چیک پوسٹ افغانستان کے حوالے کرتے وقت ہمیں اعتماد میں لینا تو درکنار کوئی اطلاع تک نہیں دی گئی۔

ڈرون حملے اور پاکستان میںدوسرے حساس ایشوز دوبارہ سر اٹھا رہے ہیں ۔ملا محمد منصور کی ممکنہ ہلاکت کے بعد طالبان پاکستان کو نقصان پہنچانے کی سوچ رہے ہیں اورپیپلز پارٹی پاناما پیپرز کے حوالے سے َ الیکشن کمیشن میں ایک درخواست جمع کروانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، جس میں آئین کے آرٹیکل 62اور63کے تحت وزیر اعظم نوازشریف اور ان کے 4رشتہ داروں کی نااہلی کا مطالبہ کیا جائے گا۔اس سلسلے میں درخواست رواں ہفتے جاری کروائی جا سکتی ہے۔ جس میں وزیر اعظم نواز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار،اراکین قومی اسمبلی حمزہ شہباز اورکیپٹن صفدر کی نا اہلی کا مطالبہ کیا جائیگا۔عمران خان کو پہلے ہی اپوزیشن لیڈرخورشید شاہ نے پیچھے لگا لیا تھا،لہذا تحریک انصاف نے بھی وزیر اعظم کی نااہلی کے لیے الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔اپنے خلاف نااہلی کی تحریک کو بھانپتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف پانچ روزہ نجی دورے پر’’ طبی وسیاسی‘‘ معائنے کے لیے برطانیہ میں ہیں ۔جب کہ مولانا فضل الرحمان وزیراعظم اور آصف زرداری کی ملاقات کرانے کے لئے پہلے ہی لندن موجودہیں۔

اپنوں سے ڈرے اور غیروں کے قرضوں میں دبے ہمارے حکمرانوں کو اپنی20 کروڑ کی آبادی کے قوتِ بازو سے زیادہ اپنے آقاؤں کی طرف سے ملنے والی خیرات پر بھروسہ ہے۔ہم جو قدرتی خزانوں سے مالامال ہیں ۔ ہم جو دنیا کی سب سے عمدہ کپاس اگانے والی دھرتی ہیں،ہم جو سونا اگلتی سرزمینوں کے مالک ہیں ،کب تک ڈنمارک اور ناروے جیسے بنجرملکوں کے ویزے حاصل کرنے کے لیے لائینوں میں کھڑے رہیںگے؟ ہم کب تک پاکستانی یونیورسٹیوں سے پی ایچ ڈیز کرکے نیویارک کی سڑکوں پر ٹیکسیاں چلانے کے لیے پاگلوں کی طرح دوڑتے رہیںگے؟ کب تک ہماری گردنوں میں بے غیرتی کے کشکول لٹکے رہیں گے؟ کہاں گئی ہماری قومی غیرت و حمیت؟ کہاں گئی ہماری خودداری اور مردِ مؤمن کی شان بے نیازی؟

بے ضمیری،بے حِسی اپنی سہیلی ہوگئی
اورمری دھرتی نوابوں کی حویلی ہوگئی
ہم نے یوں کشکول پھیلایاجہاں کے سامنے
’’زندگی اپنی بھکارن کی ہتھیلی ہوگئی‘‘

Exit mobile version