ایدھی کی یاد میں

ایدھی کی یاد میں 1

"گمنام خان  کے بہکے قلم سے”

یوں تو گمنام خان نے ارادہ کر لیا تھا کہ اب قلم نہیں اٹھائے گا لیکن اِس "خان” کا یہ ارادہ بھی اُس "خان” کے "ارادہِ آفریدیانہ” جیسا ہی نکلا جو ہر مقابلہ ہار کر قوم کو اپنی ریٹائرمنٹ کی خوشخبری سناتا ہے اور پھر وہ خوشخبری بھی غریب کی تنخواہ کی طرح کچھ ہی دنوں میں یادِ ماضی بن جاتی ہے۔

 

قوم ایک سانحے سے گزری ہے، موقع محل نہیں کہ میں قلم کو بہکنے کی اجازت دوں اس لئے خانوں کی بات پھر کبھی کے لئے اٹھا رکھتے ہیں اور بات کرتے ہیں اُس عظیم ہستی کی جسے ایک زمانہ ایدھی کے نام سے جانتا ہے۔ افسوس کہ ایدھی صاحب نہیں رہے (اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ)۔ اللہ تعالٰی سے دُعا ہے کہ مرحوم کی مغفرت فرمائیں اور ہمیں بھی توفیق دیں کہ ہم انسانیت کی خدمت کے لئے زیادہ نہیں تو ہر روز دو چار منٹ ہی صرف کر سکیں۔

 

ایدھی صاحب کیا گئے، میڈیا کو ایک موضوع ہاتھ آ گیا۔ ویسے تو یہ صرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں میڈیا کا وطیرہ ہے کہ اس طرح کے مواقع "کیش” کروائے جاتے ہیں اور "ریٹنگ” بڑھانے کے چکر میں طرح طرح کی "معلومات” فراہم کی جاتی ہے جیسا کہ آپ میں سے کئی نے ملاحضہ کیا ہو گا کس طرح ایک ٹی وی چینل کے رپورٹر نے قبر میں لیٹ کر رپورٹنگ کی تھی۔  میڈیا کی حد تک تو اب یہ قابلِ برداشت ہو گیا ہے کیونکہ شائد یہ اُن بیچاروں کی روزی روٹی کا معاملہ ہے، اور پھر یہ بھی ہے کہ کسی حد تک ہم خود بھی قصوروار ہیں، ہم سنسی پسند کرتے ہیں اور میڈیا تو وہی دکھائے گا جو ہم پسند کریں گے، انہیں بھی تو اپنی دکان چلانی ہے۔

آج بات روائتی اور الیکٹرونک میڈیا کی نہیں بلکہ سوشل میڈیا کی کرنا چاہ رہا ہوں، جو ہم اور آپ چلاتے ہیں۔ جس کا کنٹرول مکمل طور پر "پبلک” کے ہاتھ میں ہے، وہی "پبلک” جس کے بارے میں سنتے تھے کہ "پبلک سب جانتی ہے” لیکن کم از کم میری رائے بدل گئی ہے، پبلک بس اتنا جانتی ہے کہ فیس بک، ٹویٹر اور انسٹاگرام پر جو بھی نظر آئے، آنکھ بند کر کے ایک دفعہ لائک اور ایک دفعہ شئیر دبا دیں اور فریضئہ سوشل میڈیا ادا ہو گیا۔  حیرت ہوتی ہے جب کئی دفعہ احباب کسی فوتگی کے اعلان پر بھی دھڑا دھڑ لائیکنگ کا فریضہ سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔  فقیرا    اگر حیات ہوتا تو شائد اس پر رونے کے بجائے مر ہی جاتا، اچھا ہوا بیچارہ نہیں رہا۔

 

آج میں بات کرنا چاہ رہا ہوں اس پوسٹ کے بارے میں جس کو ایک تحریک کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے اور ہر آدمی شئیر پر شئیر کرتا چلا جا رہا ہے۔  اُس پوسٹ کے متن میں حکومتِ پاکستان سے گزارش کی جار ہی ہےکہ ۸ جولائی کو، جو کہ ایدھی صاحب کا یومِ وفات ہے، اسے یومِ ایدھی قرار دیا جائے تاکہ اِس دن ہم ایدھی صاحب کی یاد میں غریبوں کی مدد کر سکیں۔

خیال تو خوب ہے، جتنا سوچا اس کے فوائد ہی نظر آئے۔ کچھ فوائد آپ سے بھی شئیر کرتا ہوں۔

 

  1. ایدھی بیچارہ تو سارا سال غریبوں کی مدد میں لگا رہتا تھا۔ اگر ہم نے بھی ایسا کیا تو شائد لوگ ایدھی کو بھول جائیں اس لئے ایدھی کے چاھنے والوں کو چاہیے کہ اس کارِ خیر کو ہرگز ہرگز ایک دن سے زیادہ نہ کریں۔ تاکہ جب بھی کسی غریب کو دوا نہ ملے یااسب کے بچے بھوک سے بلبلائیں تو وہ ایدھی صاحب کو یاد کر لیا کرے۔
  2. وہ الماری میں جو ایک کاٹن کی کلف والی سفید قمیض شلوار، لال رمال والی کال واسکٹ کے ساتھ ہینگر پر لٹکی رہتی ہے، اس کے استعمال کے مواقع خاطر خواہ نہیں۔ اس طرح یومِ ایدھی کی صورت میں ایک مزید دن مل جائے گا تاکہ اس دن ہم وہ کپڑے زیبِ تن کر کے، انتہائی "انکساری” سے غریبوں تک ان کا حق پہنچا سکیں۔
  3. اگر ہم روزانہ کی بنیادوں پر غریبوں کی مدد کریں گے تو پھر اس کارِ خیر کی اہمیت کم ہوتے ہوتے ختم ہو جائے گی اور ظاہر ہے غیر اہم واقعات   خبر بنتے ہیں نہ اخباروں میں تصویریں شائع ہوتی ہیں۔ اب آپ خود ہی سوچیں اسی طرح خبریں کم ہوتی رہیں تو  یہ صحافت کے لئے کس قدر نقصان دہ ہو سکتا ہے؟ کئی خبروں کے ادارے بند ہو سکتے ہیں  اور صحافی بے روزگار۔ کم از میں تو نہیں چاہتا کہ صحافی بے روزگار ہوں یا خبروں کی کمی ہو، اس لئے مصلحت یہی ہے کہ سال میں ایک دفعہ ہی غریبوں کی مدد کی جائےتاکہ خبروں کی وافر مقدار میں فراہمی میں کوئی کمی نہ آئے۔
  4. انتہائی ضروری،  اگر ایک دن سے زیادہ غریبوں کی مدد کر دی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ غریبوں کی ضرورتیں پوری ہونے سے اُن کی غربت ختم ہونے کا خطرہ لاحق ہو جائے جو نہ صرف  غریبوں کی نسل کشی کے مترادف ہے بلکہ یہ ایدھی صاحب کے ساتھ عین غداری ہو گی۔ اگر غریب نہ رہے تو ہم ۸ جولائی کو کس کی مدد کریں گے اور کیسے ایدھی صاحب کو یا دکریں گے؟ نہ بھائی نہ، ہمیں ہر حال میں ایدھی صاحب کو یاد رکھنا ہے  اس لئے خبردار اگر کسی نے ۸ جولائی کے علاوہ کسی غریب کی مدد کرنے کا سوچا بھی۔
  5. ایک مزید پہلو اور فائدہ  یہ بھی ہے کہ جب ہم اپنے محلے میں ۸ جولائی کو "امدادِ غریباں” کا اہتمام فرمائیں گے تو ہمارے وہ ممبرانِ اسمبلی  جو ہمارے لئے عید  کا چاند ہو جاتے ہیں، عید بھی وہ جو پانچ سال بعد آتی ہے،  وہ  بھی غریبوں کی مدد کا جذبہ لئے اس کارِ خیر میں شرکت کے لئے ضرور آئیں گے اور اس طرح تجدیدِ وفا کا ایک موقعہ میسر آجائے گا۔
  6. سیاستدان ریٹائر ہوتے ہیں، فوت ہوتے ہیں، جگہ خالی ہوتی ہے اور نئے سیاست کرنے والے آتے ہیں۔   ہمارے ملک میں سیاستدانوں کی تربیت کے موقع نہ ہونے کی برابر ہیں جو کہ ہمارے ملک کے ترقی نہ کرنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ مستقبل میں قوم کے مستقبل پر طبع آزمائی کرنے کے خواہشمند  متوقع سیاستدانوں کے لئے یہ ایک یقینا سنہری موقع ہوگا اپنے فنِ خطابت کے جوہر دکھانے اور ثابت کرنے کا کہ وہ عوام کو کیسے سبز باغ دکھا سکتے ہیں۔ یوں امید ہے کہ یومِ ایدھی ملک کو نئے سیاسدان دے کر ملک کی ترقی میں اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔

یہ تو وہ چند قابلِ ذکر فوائد ہیں جن کا ذکر مناسب تھا، ورنہ بہت سارے ایسے ضمنی فوائد بھی ہیں جن میں سے کچھ میرے ذہن میں ہیں اور کچھ سے شائد میں ابھی بے خبر ہوں۔   بہرحال کچھ بھی ہو، یومِ ایدھی ایک بے نظیر آئیڈیا ہے اور یہ جس کسی کے بھی ذہن کی پیداوا ر ہے، میں اس کو سلام پیش کرتا ہوں۔ اب دیکھیں نا، دنیا میں کئی طرح کے دن منائے جاتے ہیں، ماں کا دن، باپ کا دن، ٹیچر کا دن،  وغیرہ وغیرہ  اور ہم کس قدر پیچھے ہیں اس معاملے میں۔ دنیا والے کیا سوچتے ہوں گے ہمارے بارے میں؟  یومِ ایدھی یقینا اُن کوتاہ نظر لوگوں کے منہ پہ ایک طمانچہ ہو گا اور اس طرح دنیا میں ہماری قوم کا ضرور بول بالا ہو گا، انشاء اللہ۔

ہاں یاد آیا، ایک درخواست کرنا چاہوں گا آپ سب سے۔  دنیا میں دنوں کو اس قدر منسوب کر دیا گیا ہے کہ اب شائد ہی کوئی دن بچا ہو جو کسی مناسبت سے منایا نہ جاتا ہو۔ ایسے میں اب شدت سے کمی محسوس ہوتی ہے ایک ایسے دن کی جو کسی سے منسوب نہ ہو اور اس دن کو ہم  سکون سے اس پریشانی کے بغیر گزار سکیں کہ آج فلاں چیز کے بارے میں سوشل میڈیا پر پوسٹ نہ ڈالی تو لوگ ہمیں کس قدر کم علم قرار دیں گے۔ میں ایک دن تجویز کرنا چاہتا ہوں، اور آپ سب سے حمائیت کی درخواست ہے، دن کا نام ہے "خالی ڈے” اور اس دن کی خاصیت یہ ہو گی کہ اس دن کوئی ڈے نہیں منایا جائے گا۔ اگر خالی دنوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے سال کا کوئی عام دن میسر نہ ہو تو میں ۲۹ فروری پر بھی قناعت کر سکتا ہوں کہ کم از کم چار سال میں تو ایک دفعہ خالی ڈے میسر آئے گا۔

 

* * * * * * * * *  * * *  * * * * *

جملہ حقوق بحق مصنف محفوظ ہیں۔ مصنف کے کام کے کسی بھی حصے کی فوٹو کاپی، سکیننگ کسی بھی قسم کی اشاعت مصنف کی اجازت کے بغیر نہیں کی جا سکتی۔

Exit mobile version